کمبل والے بابا

 عقیل قادر۔اوسلو۔ناروے
خانہ کعبہ کے سامنے کا منظر تھا اور مغرب کے بعد کا وقت۔ہر طرف لوگوں کی چہل پہل لگی ہوئی تھی۔لیکن ایک باباجی اس سب سے بے خبرستون سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔قرآن ان ک…ے ہاتھ میں تھا اورپاس ہی ان کی سہارے والی لاٹھی پڑی تھی۔ابھی ہم باباجی کو دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک دوست نے پوچھا “جانتے بھی ہو،یہ کون ہیں؟” ہم نے لا علمی میں سر ہلایا تو وہ کہنے لگے۔یہ باباجی یہاں پچھلے پچاس سال سے بیٹھے ہیں،ان کا کھانا ،پینا،سونا اور سب کچھ یہیں ہوتا ہے۔ان کا کل سرمایہ یہی کمبل اور تھیلا ہےجو نظر آرہا ہے۔
ہم نے تھیلےمیں جھانکا توایک کپڑے کےسوٹ اور چپل کے علاوہ کوئی تیسری چیز نظرنہیں آئی۔ہمیں یہ لائف سٹائل بڑا عجیب سا لگا۔دل کیا کہ خود جا کے ان سے پوچھا جائے کہ یہ سب کیا ہے؟۔چنانچہ ہم نے بڑے بھائی محمود صاحب کو بھی ساتھ لیا اور باباجی کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔باباجی نے مسکراتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں سلام کا جواب دیا۔
رسمی حال احوال کے بعد ہم نے باباجی کا انٹرویو لینا شروع کیا تو معلوم ہوا باباجی کا تعلق پاکستان سے ہے۔سولہ سترہ برس کے ہوں گے کہ وہ یہاں آئے اور پھر ایسے آئے کہ یہیں کے ہو کے رہ گئے۔اور اللہ سے کہا “یااللہ !اب ایک بار آ گیا ہوں تو اب اس پاک گھر سے میری لاش ہی نکالیو، تیرے گھر سے نکلنے کا جی نہیں کرتا”۔
دن مہینوں میں بدلے اور مہینے سالوں میں،لیکن باباجی کی نیت نہ بدلی ۔اپنے ارادے پر فولادی چٹان بن کر کھڑے ہو گئے اور خدا گواہ ہے ایسے کھڑے ہوئےکہ جوانی سے بڑھاپا آ گیا۔ ٹانگوں اور طاقت دونوں نے ساتھ چھوڑ دیا ،لیکن باباجی نے اللہ کے گھر کا ساتھ نہ چھوڑا۔بیمار بھی ہوئے لیکن حرم سے نکل کر علاج کروانا گوارا نہ کیا۔
ہم نے دوبارہ سوال کیا” کیا پچھلے پچاس سال میں آپ کبھی باہر نہیں گئے” ؟ تو باباجی بولے “خود سے تو نہیں ،البتہ پولیس والے ایک دو بار اٹھا کر لے گئے تھے”۔ہوا اس طرح کہ جب ایک نئے کمشنرکی مکہ میں تعیناتی ہوئی تو اس کے کارندوں نے اپنی پھرتیاں دکھانے کیلئے لوگوں سے کاغذات وغیرہ کی تلاشی شروع کی۔میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔چنانچہ انہوں نے مجھے پکڑا اور گرفتار کر کے تھانے لے گئے۔جب مجھے اپنے کمشنر کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے چھکے چھوٹ گئے۔وہ جانتا تھا کہ ایک بار طواف سے فراغت پرمجھےشاہ فہد بھی آ کرملا تھا۔کمشنر اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔پہلے مجھ سے معذرت کی اور پھرمجھے گرفتار کرنے والوں کو بلوایا اور انہیں خوب ڈانٹا اور کہنے لگا”جسے تمہارے باپ شاہ فیصل نے کچھ نہیں کہا،تم نے اسے کیسے گرفتار کر لیا؟۔پھر میری کھانے سے تواضع کی اور پولیس وین میں اعزاز کے ساتھ جہاں سے لایا گیا تھا وہیں لا کرچھوڑ دیا ۔یہ واقعہ سنانے کے بعد باباجی نے ایک جملہ بولا جو آج بھی ہمیں یاد آ رہا ہے۔کہنے لگے”بیٹا !ہمارے لیے دعا کیا کرو!”۔ ہمیں دل میں رونا آ گیا ۔کہاں ہم اس دنیا کی گندگی کے ڈھیر میں سارا سارا دن ہاتھ پیر مار نے والے “ٹائم پاسیے ” اور کہاں یہ فرشتہ صفت انسان۔ کہ جس کی صبح بھی اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوتی ہے اور شام بھی،ہم سے دعا کا کہہ رہا ہے۔ پوچھا “باباجی! کیا دعا کریں؟” کہنے لگے “جس کعبے کے سامنے زندگی گزار دی،اسی کے سامنے زندگی ختم ہواور اللہ اپنے پاس بلالے،مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ بشکریہ 1 دوست
گزشتہ روز ایک تصویر دیکھی تو دل بے قابو ہوگیا۔ چند سال قبل کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔کیوں کہ تصویر اسی جگہ کی تھی جو باباجی کا ٹھکانہ تھا۔وہی پرانا منظر تھا۔باباجی کے ہاتھ میں قرآن بھی تھا اور وہ تھیلا بھی وہیں رکھا تھا۔سہارے والی لاٹھی بھی پاس ہی رکھی تھی۔وہ کعبہ بھی باباجی کے قریب ہی تھا ،جس کے پہلو میں انہوں نے زندگی گزاری تھی۔منظر میں تبدیلی اب یہ تھی کہ باباجی کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا تھا ۔ااورایسی حالت میں اپنے پاس بلایا کہ جمعے کا دن تھا۔باباجی روزے سے تھے۔افطار سے قبل کا وقت تھا اور باباجی قرآن پڑھتے جا رہے تھے کہ پڑھتے پڑھتے اللہ کے پاس چلے گئے
اپنا تبصرہ لکھیں