کوئی لاکھ ہوگا یوسف زلیخا نہیں ہوں میں

کوئی لاکھ ہوگا یُوسُف ، زلیخا نہیں ہوں میں
خریدے جو حسن کو  وہ ملکہ نہیں ہوں میں
 
مجھ  کو  عزیز  اپنا  پَندَار  اور  خودی
رَسم و رہِ دَہر سے بے پروا نہیں ہوں میں
 
پوجا کروں کسی کی ، کسی دیوتا سمان
اتنی بھی کج فہم  اور سادہ  نہیں ہوں میں
 
یہ فریب چاہتوں کا کسی اور کو تو دے
تسکینِ  دل لگی کا زریعہ نہیں ہوں میں
 
بے وجہ محبتوں کے خزانے لٹاؤں کیوں؟
بہتا سخاوتوں  کا  دریا  نہیں  ہوں  میں
 
ہواۓ دستِ غم سے بکھروں میں ٹوٹ کر
اب  اس قدر بھی لوگو شکستہ نہیں ہوں میں
 
ٹھیک ہے دوچار آنسو ترے غم کو دے دئیے
گریہ کروں مسلسل ، چشمہ نہیں ہوں میں
 
مجھے گنگنانے والے بہت خاص خاص لب
رزمیہ گیت ہوں  میں، طربیہ نہیں ہوں میں
 
 کوئی کیوں اٹھاۓ مجھ پہ ملامت سے انگلیاں
مَستُور ہوں اے دنیا تماشا نہیں ہوں میں

اپنا تبصرہ لکھیں