کوئی ہے جو عبرت پکڑے؟

ایم وددوساجد
گزشتہ 22جنوری کو شام کے وقت جب مجھے بعض میڈیا دوستوں نے یہ تکلیف دہ اطلاع دی کہ بریلوی مکتب فکر کے جید عالم دین اور بہت سی کتابوں کے مصنف مولانا یسین اختر مصباحی کو پہلے دہلی پولس نے اور پھر دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے اٹھالیا ہے تو میں اس وقت اپنے فرائض منصبی کے تحت چند تصویروں کا جائزہ لے رہا تھا۔یہ تصاویر اس مظاہرہ کی تھیں جوڈاکٹر ذاکر نایک کے ‘قرآن اور ماڈرن سائنس ‘کے موضوع پرمجوزہ خطاب کے خلاف ‘آل انڈیا علماومشایخ بورڈ’نے منظم کیا تھا اور جس میں چند باریش افراد ہاتھوں میں کچھ بینر اور پلے کارڈ لئے ہوئے تھے۔ان پر جو نعرے لکھے تھے وہ کچھ اس طرح کے تھے:
آل سعود کے لال
نہیں گلے گی تیری دال
ذاکرکھلنایک مردہ باد
اس کے علاوہ بھی اور کئی بے ہودہ قسم کے نعرے لکھے تھے۔ایک بینر پر جو نعرہ تھا اس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ڈاکٹر ذاکر نایک دہشت گردی کے حامی ہیں اور پوری دنیا میں دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی تائید کرتے ہیں۔کئی بینروں پر ان کی تصویریں بناکر ‘لال رنگ سے کراس کا نشان لگادیا گیا تھا۔ڈاکٹر نایک کا یہ خطاب انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد کیاگیا تھا۔یہ پروگرام ایک دو دن کے اندر ہی بنا تھا۔ڈاکٹر نایک اپنے ذاتی دورے پردہلی آئے تھے اور چند فاضل گھنٹوں کو کام میں لانا چاہتے تھے۔اس پروگرام کی کوئی بہت زیادہ تشہیر نہیں کی گئی تھی اس کے باوجود اس میں تقریباً دوہزار لوگ آگئے۔اس کا سبب یہ ہے کہ جو محدودموبائل پیغامات سینٹر کی طرف سے جاری کئے گئے تھے وہ مزید دوسرے افراد تک بھی پہنچ گئے۔اور اس طرح ذاکر نایک کے پروگرام کی خبر سینہ بہ سینہ کوسوں دورتک پھیل گئی۔صرف دہلی سے ہی نہیں بلکہ یوپی اور ہریانہ تک سے لوگ آگئے۔جس ہال میں یہ پروگرام ہورہا تھا اس میں تو محض تین سو افراد کی گنجائش ہے لیکن پروگرام سے تین گھنٹے پہلے ہی لوگوں کی آمدکو دیکھتے ہوئے پورے سینٹر میں کئی مقامات پر بڑی اسکرینیں لگادی گئی تھیں۔مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر نایک کے حامیوں نے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ان کے چند درجن مخالفین سے الجھنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔لیکن مخالفین نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر دروازے پر تین گھنٹے تک ہنگامہ جاری رکھا اورلودھی روڈکی اس انتہائی مصروف ترین سڑک پرٹریفک درہم برہم ہوگیا۔یہ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ جب مسلمان ہی ایک مسلمان کے خلاف صدر دروازے پر یہ تماشہ کر رہے تھے۔جو غیر مسلم ادھر سے گزر رہے تھے آخر انہوں نے کیا تاثر لیا ہوگا؟ہندی اورانگریزی میں لکھے ہوئے نعروں کو دیکھ کر انہوں نے یہی خیال کیا ہوگا کہ اسلامک سینٹر میں دہشت گردوں کا کوئی تربیتی کیمپ لگاہوا ہے۔زیر نظر سطورمیں اس موضوع پر مزید کچھ کہنامیرا مقصود نہیں ہے۔آئیے اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔
جیسا کہ اولین سطورمیں’میں نے لکھاکہ مجھے جب یہ اطلاع ملی تو
میں اس مظاہرہ کی تصویروں کا جائزہ لے رہا تھا۔اچانک میرے ہاتھ سے یہ تصویریں چھوٹ گئیں۔میں اپنی جانب سے جو کچھ کرسکتا تھا کیا۔میں نے لوگوں کو مطلع کیا اور اس پر آمادہ کیا کہ مولانا کو ہر حال میں باعزت واپس لانے کے لئے قانونی دائرہ میں رہ کرسب کچھ کیا جانا چاہئے۔اوکھلا کے سابق ایم ایل اے آصف محمد خان اور عام آدمی پارٹی کے امیدوارامانت اللہ خان اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے۔اس مظاہرہ میں اوکھلا کی مسلم بستیوں کے تمام مکاتب فکر کے مسلمان بھی شامل تھے۔سچ پوچھئے تو اس مظاہرہ میں سب سے زیادہ تعدادانہی کی تھی جنہیں دیوبندی یا وہابی کہا جاتا ہے۔خود وہاں کے مقامی لیڈروں کا تعلق بھی اسی طبقہ سے ہے۔لیکن سب نے ایک آواز ہوکر مولانا یسین اختر مصباحی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا اور اس وقت تک کر تے رہے جب تک ان کو
باعزت رہا نہ کرالیا۔یہاں تک کہ مقامی پولس کو مسلمانوں اور مولانا سے معافی مانگنی پڑی۔میں نے دیکھا کہ تمام مکاتب فکر اور خاص طورپردیوبندی علما نے اس واقعہ کے خلاف بجا طورپرمذمتی بیانات بھی جاری کئے۔
اگلے روز میں نے بریلوی مکتب فکر کے ایک بڑے اور بااثر عالم دین کو فون کیا اور ان کو صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ان کو بتایا کہ یہ اتحادکی طاقت تھی کہ جس نے مولانا کوپولس کے آہنی شکنجہ سے چھڑا لیا۔میں نے ان سے یہ بھی کہاکہ یہ انتشار کی نحوست ہے کہ پولس ہمارے اتنے بڑے عالم دین کو بھی اٹھا لے جاتی ہے۔اس موقع پر میرے ایک عزیز دوست نے مجھے ایک حوالہ بھیج دیا۔اس کو پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔انہوںنے بتایا کہ مولانا یسین اختر مصباحی صاحب نے ‘1857کے چند علمائ’نامی کتاب میں لکھا ہے
کہ دیوبندی علما جدوجہد آزادی کے دوران برطانوی حکومت کے مخبر بنے ہوئے تھے۔’میں نے بریلوی مکتب فکر کے اس عالم دین سے کہا کہ کیا آپ کے یہاں اور خاص طورپر’آل انڈیا علما ومشایخ بورڈ’میں کوئی ایسا ذی شعور انسان نہیںہے کہ جو اس واقعہ سے عبرت پکڑے؟
مجھے اس موقعہ پر یہ شکایت کرنے میں بھی کوئی تکلف نہ ہوا کہ خود کو ‘اہل سنت والجماعت’کہلانے والے افراد مسلسل اس طرح کی تشہیر کرتے آرہے ہیں کہ دیوبندی علما سخت گیر ہیں۔یہاں تک کہ پچھلے
چند سالوں سے باقاعدہ ایک مہم چلائی جارہی ہے جس کے تحت حکومت کویہ باورکرانے کی کھلی کوشش کی جاتی ہے کہ —–سچے وطن پرست تو بس ہم ہی ہیں اور یہ کہ ہمارے علاوہ مسلمانوں کے جتنے بھی طبقات ہیں وہ سب دہشت گردوں کے حامی ہیں—–یہی نہیں پچھلے دوتین برسوں کے دوران ملک کے بعض شہروں میں آل انڈیا علما
ومشایخ بورڈ کی طرح کی مختلف تنظیموں کے بینر تلے بڑے بڑے جلسے کرکے یہ بات کھلے طورپر کہی گئی ہے کہ دیوبندی علما دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں۔اس انتہائی حساس اور خوفناک الزام کی آڑ میںحکومت سے یہاں تک مطالبہ کر دیا گیا کہ مسلمانوں کے نام پر دی جانے والی سیاسی نمائندگی ہمیں دی جائے انہیں نہیں۔مولانا یسین اختر مصباحی کے ساتھ پیش آنے والے اس تکلیف دہ واقعہ کے بعد کیا ہمارے یہ ‘بھائی’اپنے نفرت آمیز نظریات پر نظرثانی کریں گے؟اور کیا اب بھی سیاسی اور سماجی سطح پر اتحاد کی کوئی مضبوط عمارت تعمیر نہیں کریں گے؟

اپنا تبصرہ لکھیں