ڈاکٹر اے آرامتیاز
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حکومت کے ایک بڑے افسر سیاسلامی نظم کے متعلق بات چل نکلی وہ کہنے لگا آپ یہاں کون سا اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں؟مولانا مودودی کا؟پرویزیوں کا ؟ دیو بندیوں کا ؟بریلویوں کا ؟ شیعوں کا ؟
میں نے جواب دیا جناب آپ کے اس سوال سے مجھے انگریز یاد آگیا جو ہندوستان کے سیاسی فرقوں کی آڑ لے کر کہا کرتا تھا آپ کون سا سورج مانگتے ہیں کانگریس کا ؟مسلم لیگ کا؟مہا سبھا کا؟سردار تارا سنگھ کا؟احرار کا یا خاکسار کا؟میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا آپ اسلام کا وہ حصہ نافذ کرنے پر تیار ہیں جس پر تمام مسلمان وں کا اتفاق ہے۔مثلاً نظام عبادت کا قیام ،شراب رقص اور سود کا خاتمہ دفاع ملک اور استواری معشیت کے لیے بھاری صنعت اضافہء علوم کے لیے ادارہ ہائے تالیف و ترجمہ امربالمعروف کے لیے ریڈیو،اخبارات اوردیگروسائل کا آزادانہ استعمال۔حکومت پہ بے روک و ٹوک تنقید ۔اگر ایک بدو تیس لاکھ مربع میل کے واحد فرماں رواء حضرت عمر سے پوچھ سکتا ہے کہ تم نے ڈیڑھ کپڑے سے پوری قمیض کیسے بنا لی تو مجھے اپنے وزیر و سفیر سے یہ پوچھنے کا حق ہے۔
۱۔کہ آپ اللہ کے سامنے سر کیوں نہیں جھکاتے؟
۲۔قرآن نے شراب کو حرام قرار دیا ہے آپ کیوں پیتے ہیں؟
۳۔آپ نماز کے اوقات رقص گاہوں اور قمار خانوں میں کیوں گزارتے ہیں؟
۴۔آپ اپنی مادری زبان سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟
۵۔آپ عوام کے ملازم ہیں پھر عوام سے کیوں بھاگتے ہیں؟
یورپ اور امریکہ میں تنقید کی وجہ سے کسی کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ہر شخص کو آزادی ہے جو چاہے لکھے اور کہے۔کیا دنیائے یورپ کی و امریکہ کے استحکام و دوام کا رازاسی آزادیء تنقید میں پوشیدہ نہیں؟