گفتگو رومانہ فاروق
پاکستان کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے خاموش طبع معروف شاعر کاشفؔ کمال کی شاعری سچ بولتی ہے ، ان کی شاعری میں پردیس کی تنہائی ، ہجر کی لذت ، اداسی ،سادگی ، محرومیوں اور زمانے بھر کا دکھ محسوس ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کویت کے ادبی حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔بہت بڑی بڑی بات کو انتہائی سادہ زبان میں کہنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں اور یہی ان کی پہچان ہے ۔’’محبت وہم ہے شاید ‘‘ ان کا شعری مجموعہ دنیا بھر کے اردو ادبی حلقوں میں مقبول ہے ۔ گزشتہ دنوں ان سے ملاقات کے دوران اردو زبان و ادب اور شاعری کے متعلق ان کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔ کاشف ؔ کمال کہتے ہیں کہ
ہمیں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرنے کی بجائے معاشرہ تعمیر کرنا چاہیئے
زندگی کو اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک جدو جہد کا نام ہے جس میں مسلسل لگے رہنے سے انسان کوئی مقام حاصل کر لیتا ہے ۔ اور شاعری اس قابل بنا دیتی ہے کہ انسان اپنی ذات کا سامنا کر سکے۔ شاعری کیفیات کا نام ہے اور کیفیت میں ایک طلسم ہوتا ہے ، جو بہت زور دار اثر کے ساتھ قاری کے دل میں اتر جاتا ہے ۔ جو شاعر گہرے احساس کی شاعری آسان فہم اور سادہ الفاظ میں کرتے ہیں میری نظر میں بڑا شاعر کہلاتا ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شاعروں کو چاہیئے کہ عشق ، محبوب ، زلفوں ، اور چاند ستاروں کی بات کی بجائے معاشرتی بے راہ رویوں ، بگاڑ ، اصلاح ، سیاسی معاملات ، معاشرتی محرومیوں اور ان کی اصلاح جیسے مضامین کو اجاگر کریں ، ان پر نظمیں لکھیں ، شعر کہیں تاکہ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا جا سکے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے ۔
اُردو زبان دنیا میں کبھی غائب نہیں ہو سکتی کیونکہ شاعری کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے ، پاکستان اور ہندوستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کیلئے وسیع پیمانوں پر کام ہو رہا ہے ۔ پوری دنیا میں پاکستان و ہندوستان کے علاوہ کویت میں سب سے زیادہ فروغ اردو ادب کیلئے کام ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مقامی و بین الاقوامی مشاعرے کثرت سے منعقد ہو رہے ۔ نئے لکھنے والوں کیلئے بہت سے مواقع ہیں ۔
سمندر پار رہنے والے قلمکاروں کی اُردو تخلیقات معیار کے لحاظ سے نہایت عمدہ ہوتی ہیں ۔ جذبات اور احساسات کی حدت سے بھر پور ۔ وسیع مشاہدے اور گہری نظر کے حساب سے دیکھا جائے تو سمندر پار لکھاری پاک و ہند کے مقامی بڑے بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑتے محسوس ہوتے ہیں ۔ ایک تخلیق کار کا دامن کشادہ ہونا چاہیئے نئے لکھنے والوں ، مقامی و سمندر پار لکھاریوں کا آپسمیں رابطہ مثبت شکل میں ہو تو بہت سے مقامی تخلیق کار بین الاقوامی حیثیت حاصل کر سکتے ہیں ۔
کاشف کمال کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش ہیں
ایک شعر
زخم سینے میں چھپائے ہوئے لگتے ہو مجھے
تم میرے شہر سے آئے ہوئے لگتے ہو مجھے
دو شعر
کوئی شجر بھی سرِ رہگزار تھا ہی نہیں
مرے لئے یہ سفر سازگار تھا ہی نہیں
جنہوں نے جڑ سے اُکھاڑا مجھے اندھیرے میں
وہ کہہ رہے ہیں کہ تُو سایہ دار تھا ہی نہیں
تین شعر
دُور وطن سے کرتا ہوں دن بھر مزدوری اپنوں کی
لیکن خون رُلا دیتی ہے ر ات کو دُ وری اپنوں کی
اپنے ہاتھوں ہانڈی روٹی کرتے ہوئے یاد آتی ہے
دیسی گھی او ر شکر والی میٹھی چُوری اپنوں کی
ہم پردیسی لوگ تو کاشفؔ ایک ہی دُھن میں رہتے ہیں
جیسے تیسے ہو جائے ہر خواہش پوری اپنوں کی
دو شعر
میری طرح بے تاب نظر کیوں نہیں آتے
لوگوں کو میرے خواب نظر کیوں نہیں آتے
خوشحال اگر تم نے بنایا ہے و طن کو
چہرے یہاں شاداب نظر کیوں نہیں آتے