شہزاد بسراء
ہمارا لطیفہ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ شادی کی محفل میں سب کے چہرے کھل اٹھے۔ حسبِ معمول ہم محفل کی جان تھے ۔ چھوٹے بڑے سب ہمارے چٹکلوں ، لطیفوں اور باتوں سے بہت محظوظ ہوتے ہیں ۔ یہی حال آج تھا۔ ہم نے داد لینے کیلئے اپنے کزن سے پوچھا ۔ ”لگتا ہے ہمارا لطیفہ سب کو بہت پسند آیا ہے”
کزن ہنسی روکتے ہوئے بولا۔”بھائی جان لطیفے کو گولی ماریں ۔ آپ یہ بتائیں کہ حجامت کہاں سے بنوائی ہے۔ایمان سے بڑی مزاحیہ ہے”
ایک آواز آئی ۔” بھائی جان لگتا ہے کہ حجامت دو دفعہ بنوائی ہے”
”بڑا ڈیزائن مارا ہے۔کیا امریکہ سے آئیڈیا لیا تھا؟”
ابھی اس جملے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ خالو بھی پیچھے نہ رہے۔” نہیں بھئی آخر نئے حجاموں کو بھی توسکھا نا ہوتا ہے”
ایک کے بعد ایک آواز ۔بلکہ جتنے مُنہ اُن سے زیادہ باتیں۔
اور تو اور امی جو ہمیشہ ہمارے لمبے اور الجھے بالوں سے گھبرا کے کہا کرتی ہیں کہ بیٹا اب بال کٹواہی لو ۔مگر بال کٹوانا کبھی بھی ہمارے لیے ترجیحی کام نہیں رہا۔ ہم ہمیشہ اِس ناپسندیدہ کام کو ممکن حد تک التوا کرتے ہیں۔ اب کی بار جب ہم بال کٹوا کے گھر داخل ہوئے تو امی مسکرا اُٹھی ۔ وہ ہمارا ہمیشہ مسکرا کر ہی استقبال کرتی ہیں مگر یہ مسکراہٹ کچھ بڑھ کر تھی۔حیرت ملے پیار سے بولیں
”یہ بال کیسے بنوائے ہیں”
پھر تو گھر میں جیسے عید قربان کا بکرا آتا ہے۔ سب فوراً جمع ہوگئے اور لگے تبصرہ کرنے۔
مابدولت اب کچھ عرصہ سے اپنے حسن و جمال میں قدرے کمی تو محسوس کرہی رہے ہیں مگر ہماری ہر دلعزیزی کی وجہ ہماری باتیں ہی ہوا کرتی ہیں مگر کچھ گمان ہوا کہ اب کے وجہ باتیں نہیں ہماری حجامت ہے۔ بھاگ کر آئینہ دیکھا تو دیکھا نہ گیا ۔ ابنِ انشاء یا د آگئے ۔
انشاء جی جرمنی میں بال بنوانے حجام کے پاس تشریف لے گئے ۔ جرمن انگریزی میں بات کرنے سے احتراز کرتے ہیں اور انشا ء جی کو ظاہر ہے جرمنی نہیں آتی تھی۔ انگشتِ شہادت کی ایک پور دکھاتے ہوئے حجام کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بال زیادہ مت کاٹنا تھوڑے سے صرف پور جتنے ہی کاٹنا ۔ اس اللہ کے بندے نے عین ہدائیت کے مطابق بال کاٹے مگر سب کاٹ دیئے اور صرف پور جتنے رہنے دیئے ۔
ہماری یہ حالت تو تب بھی نہ ہوئی تھی جب امریکہ میں ماریہ نے ہمارے بال بنائے تھے۔ حسبِ معمول ہمارے بال کافی بڑھ چکے تھے اور امریکیوں کی عادت کے برعکس ماریہ ہمیں دو تین دفعہ بال کٹوانے کا کہ چکی تھی۔ہم اچھا کہ کے ٹال دیتے۔آخر ویک اینڈ پہ اُس نے ہمیں پکڑ کے لان میں کُرسی پر بٹھا دیا اور قینچی، کنگھا، مشین وغیرہ لے آئی۔ ہم نے گبھرا کے وعدہ کیا کہ ہم آج ہی ہیئر ڈریسر پاس جاتے ہیں ۔ تم پھر کبھی حجامت بنانی سیکھ لینا۔ مگر ماریہ اعتماد سے بولی کہ اُس نے کئی دفعہ بال کاٹے ہیں اور یہ اوزار اُس نے بلا وجہ نہیں رکھے۔ دوسرے جو 20 ڈالر بچیں گے اُن سے میکسیکن ریسٹورنٹ ڈنر کریں گے۔ تجویز اچھی تھی اور ماریہ کی یہ بات بھی دل کو لگی کہ بالوں کی اچھی بات یہ ہے کہ پھر بڑھ جاتے ہیں ۔ چونچہ امریکی میم ایک معزز دیسی صاحب کی حجامت بنانا شروع ہو گئی۔ اگرچہ صاحب کی دیسی بیگم کے ہاتھوں قدرے مختلف اوزار سے حجامت بنتی ر ہتی ہے مگر ایک میم کے ہاتھوں اصلی حجامت کا مزا، اُمید ہے دیسی قارئین بھی محسوس کریں گے ۔مغرب کو فتح کرنے کا نشہ اسقدر تھا کہ ہم اونگھ گئے۔ماریہ نے صاحب کو جگانا مناسب نہ سمجھا اورہماری رائے کے بغیر ہی زلف تراشی جاری رکھی۔حجامت کے بعد جب ہم نے آئینہ دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ روہانسہ ہو کر پوچھا
”تم تو کہتی تھی کہ تم نے کئی دفعہ بال کاٹے ہیں”
”ہاں اور نہیں تو کیا ان اوزاروں سے کئی دفعہ میں نے اپنی بِلیوں کے بال کاٹے ہیں” ماریہ ہنستے ہوئے بولی اورہمارے سینے پر یہ کہ کر مزید مونگ دَلی
” میری بڑے عرصے سے خواہش تھی کہ کسی کے بال کاٹوں مگر کوئی مانتا ہی نہیں تھا”.” اچھے بھلے تو بال بنے ہیں۔ بڑے سمارٹ لگ رہے ہو۔ فکر مت کرو بالوں کی اچھی بات یہ ہے کہ پھر بڑھ جاتے ہیں۔اگلی دفعہ اور اچھے کاٹوں گی”۔ مگر ہم نے پھر نہ کبھی 20 ڈالر بچائے اور نہ ماریہ کی مہارت میں اضافہ ہوا۔
کچھ عرصے سے ہم اچھے بھلے ایک ماڈرن ہیئرسیلون ”ہالی وڈ” سے بال بنواتے ہیں۔ صاف ستھرا ماحول ،پینٹ ٹائی لگائے کلین شوڈ ہیئرڈریسرز keuneکی کٹ سے بال بناتے اور کلون لگاتے ہوئے۔اسٹیمر، ہیئراسٹیٹنر، شاور، اَن گنت کریمیں، شَمپو،کنڈیشنر، شیونگ جِیل، بیک گراونڈ میں مدھم انگلش موسیقی۔ دیوار پر عمران خان ، شاہد آفریدی اور مشہور فلمی ہیروز کے ”ہالی وڈ” کے ہیئر
ڈریسرز سے بال بنواتے ہوئے تصویروں کے پوسٹر۔ بال تو اچھے بنتے تھے مگر اتنے ماڈرن ماحول کے تصنّع سے جی اوب گیا اور اُستاد رشید اور اُس کے” کویت گرم حمام” کی یاد آگئی ۔ اونچی آواز میں دیسی میوزک ، قہقہے لگاتے ، لطیفے سناتے گاہک ، دیواروں پر دنگلوں اور فلموں کے پوسٹر ، حمام میں نہاتے گاہک کا دروازہ کھول کے صابن یا تولیہ مانگنا اور دورانِ غسل باہر والوں سے گپ شپ بھی جاری رکھنا، ہر آتے جاتے کا سیلون میں آنا اور تھوڑی گپ شپ لگانا، بالوں کو کنگھی کرنا، استاد رشید کو ایک سُنانا اور چار سُننا ۔ کیا ماحول تھا، زندگی سے بھر پور ۔ ہاں صفائی ستھرائی نہ تھی ۔ چھوٹے سے ، گندے سے بازار کی ایک چھوٹی سی دوکان مگر تھی خلوص اور زندگی سے بھر پور، ہمارے رہن سہن اور ثقافت کا صحیح عکس۔سوطے کیا کہ لعنت بھیجو اس مصنوعی ماڈرن ماحول پر۔ اس دفعہ ”ہالی وڈ” کی بجائے استاد رشید کے ”کویت گرم حمام” سے بال کٹوائے جائیں گے اور اس ماحول میں حقیقی زندگی کا لطف اُٹھایں گے ۔ تھوڑی جھجھک تھی کہ کوئی دیکھ کے یہ نہ کہے کہ صاحب کہاں ایک چھوٹے سے بازار میں استاد رشید سے بال بنوا رہے ہیں مگر دل کڑا کر کے کویت گرم حمام جاپہنچے۔
ہمیں دیکھتے ہی استاد رشید نے گاہک کو چھوڑ کر ایک ہاتھ میں قینچی اور دوسرے میں کنگھی سمیت ایک نعرہ مارا اور ہمیں دبوچ لیا ۔
”اوے بسم اللہ بسرا ء صاحب ۔ آپ کو ہم ابھی تک نہیں بھولے اور آپ کی باتیں ابھی تک یاد ہیں ۔ اللہ نہ بھلائے تو آپ کوئی 10سال بعد میرے حمام میں تشریف لائے ہیں ۔اوے چھوٹے جلدی سے ایک دودھ پتی لا”
پھر باتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔اِس عرصے میں حمام میں دنگلوں اور فلموں کے پوسٹروں کی جگہ عُرس کے پوسٹروں نے لے لی تھی۔پھٹکڑ ی کی جگہ آفٹر شیو لوشن نے لے لی تھی۔ہاتھ والی مشین کی جگہ الیکٹرک مشین آ گئی تھی البتہ چھت کے جالے اور اُستاد رشید وہی تھے۔
استاد رشید نے ہمارے بال کاٹتے ہوئے فقرمندی سے کہا۔” آپ کے بال توحجام نے خراب کر رکھے ہیں ۔دو تین کٹنگ میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ مجھے اُنہیں تھوڑا سیٹ کرنا پڑے گا”
‘تھوڑا’ تو غالباََمہاوراََ کہا۔ایساسیٹ کیا کہ اب گھرسے نکلے کو جی نہیں چارہا ۔ اتنے چھوٹے اور عجیب و غریب بال بنا دیئے کہ ہر بندہ فقرہ کس رہا ہے۔ میں نے تو سوچنا شروع کر دیا کہ چند دن یونیورسٹی سے چھٹی ہی کرلوں۔ شام کوTVدیکھ رہا تھا کہ محترم قبلہ و کعبہ پیرو مرشد اردو ادب کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا پروگرام ”کلامِ یوسفی بذبان ِیوسفی” نشر ہو گیا ۔ یوسفی صاحب فرما رہے تھے
” ہم نے فکر مندی سے کہا کہ ہمارے جو بال کالے ہیں وہ کمزور ہو کے جھڑ رہے ہیں جبکہ جو مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں وہ سفید ہیں ۔ جواب ملا کہ یوسفی صاحب جب آپ کے بال پورے تھے توکبھی ان کا کوئی فائدہ ہوا۔ یوسفی صاحب کہتے ہیں کہ پھر ہم نے کبھی بالوں کی فکر نہیں کی”
سو ہمیں بھی حوصلہ ہوا اور ہم نہ صرف یونیورسٹی گئے بلکہ بڑے اہتمام سے کزن کی شادی میں بھی گئے ۔ مگر شادی میں سب چھوٹے بڑے، کزن ، خالہ خالو، بچوں نے حسبِ ہمت و حسِ مزاح استاد رشید کے فن پر تبصرہ ضرور کیا ۔ اور تو اور لڑکیوں نے ڈھولک پہ گیتوں تک کا رُخ ہماری زُلفوں کی طرف موڑ دیا۔
”متھے تے چمکن وال میرے۔۔۔۔”
”زلفاں دی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاں۔۔۔۔۔”
مگر جب بات بالم کو دعوت دینے تک پہنچی کہ وہ آ کے لَٹ سُلجھا جائے تو ہم تھوڑے گھبرا ئے اور اپنی پیاری بھتیجی نور الصباح کو اُٹھا کر باہر لان میں جا بیٹھے کہ بچے ایسے مذاق نہیں اُڑاتے۔ہم اس کی پیاری پیاری باتوں سے حظ اُٹھانے لگے۔ہماری گود میں کھیلتے کھیلتے اچانک نورالصباح ہمیں حیرت سے دیکھنے لگی اور بولی
”بابا ۔ کٹنگ کروائی ہے”
ہم نے اُسے چومتے ہوئے کہا ۔ ”جی میری پیاری بٹیا”
نو ر ہنستے ہوئے بولی
”اتنے بُرے لگ رہے ہیں”