کیا آج کا پاکستان اقبال کے خواب جیسا ہے؟
تحریر رومانہ فاروق
علامہ اقبال کے خطبات سے واضع طور پر پتا چلتا ہے۔کہ جس پاکستان کا تصور انہوں نے پیش کیا تھاوہ تہذیبی اور ثقافتی طور پر ایک اسلامی نظریاتی اور فلاحی مملکت تھا۔ اسی حوالے سے آج اگر یہ سوال کیا جائے۔کہ کیا آج کا پاکستان اقبال کے خواب جیسا پاکستان ہے؟تو اسکا جواب ۔۔ نہیں ہو گا۔کیونکہ عوام اور حکمران دونوں نے علامہ کے خواب کو ادھورا رکھا۔ یہ پاکستان کی بدنصیبی رہی کہ ابتدا سے آج تک ملکی اقتدار کے ایوانوں اور سیاست پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہے جو اقتدار ومفادات اور سرمایہ ودولت کی جنگ میں مبتلا ہیں۔جنہوں نے کھبی بھی پاکستان پر آئے کسی مشکل وقت کا سامنا ڈٹ کر اور دیدہ دلیری سے نہیں کیا بلکہ اپنے چہروں کو چھپایاہے۔ملکی وقومی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ذاتیات کو ترجیح دیتے رہے۔اپنی حکمرانیت و سیاست کو بیرونی طاقتوں کی تسکین ، مخالفین پر الزام تراشی اور عوام کے احساسات وجذبات سے کھیلنے تک محدود رکھا۔آمریت اور جہموریت کا سبق تو یاد رہا مگر پاکستان کے عزت و وقار اور اسلام کو بھولتے رہے۔اسلیے کہ یہ انسانیت کی معراج کو سمجھتے ، امانت میں ان کا کوئی کردار نہیں،دیانت میں کوئی درجہ نہیں،اخلاص میں کوئی مقام نہیں اور وفاداری میں کو ئی سطح نہیں ہے۔حکمرانوں نے تو جو کیا سو کیا۔۔۔۔۔مگر بحیثیت قوم ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو کتنا نبھایا؟؟؟؟؟؟چاہیے تو یہ تھا کہ ان سرمایہ داروں ،وڈیروںاور جاگیرداروں کے مکروہ چہروں سے نقاب نوچ کر پھیکنتے اور اقبال کے خواب کو حقیقت بناتے مگر ہم نے تو جان بوجھ کر ان کی رہنمائی کی۔انہیں اپنے اوپر مسلط کیا اور یہ ہمیں دیوار سے لگاتے رہے۔ہم نے ایک دفعہ بھی تو سنبھلنے کی کو شش نہیں کی۔ بلکہ ان کے رنگ میں رنگتے رہے۔اسی لیے تو آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانیت، مذہب، اخلاص واخلاق ،تہذیب ، عزت نفس ووقار اور عدل وانصاف سے دوری نے ہماری رگوں میں بہتے سرخ خون کی گرمی اور جوش کو ٹھنڈا اور سفید کر دیا ہے۔جبھی تو عذاب الہی پر بھی توبہ و ا ستخفار نہیں کرتے۔نفسا نفسی،بد نظمی، انتشار،لوٹ کھسوٹ اور قدم قدم پر قانون شکنی ہمارا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔کیا یہی اقبال کی اسلامی نظریاتی فلاحی مملکت ہے؟؟؟جہاں روزانہ خون کی ہولی کھیلی جاتی ہو۔غریبی ومفلسی والدین کو اولاد کا گلا گھوٹنے پر مجبور کرتی ہو۔ لڑکی کی پیدائش جرم ہو۔مذہب کو دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہو۔زن،زمین اور زرانسان سے جانور بناتی ہو۔بھتہ خوری عام ہو۔رشوت کا بول بالا ہو۔آٹے اور چینی کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگتی ہوں۔زندگی بے قدروقیمت اور موت لاکھوں کی ہو۔جائز وناجائز ہر بات کو منوانے کے لیے سڑکوں پر آنا،انسانی جانوں اور ملکی املاک کو نقصان پہچانا ضروری سمجھا جاتا ہو۔بے راہ روی عام ہو۔مغربی تہذیب پھل پھول رہی ہو۔ایسی سرزمین کو کیسے علامہ کے خواب کی تعبیر کہا جاسکتا ہے؟جس سرزمین کے اساتذہ ( روحانی والدین) اپنی تدریسی ذمہ داریوں سے غافل ہوں۔طلبا کو کتابوں سے زیادہ Cheating سے رغبت ہو۔ڈاکڑ (مسیحا ) آسائشوں کے حصول کے لیے انسانیت سے بے پروا ہ ہو جائیں۔والدین کے پاس اولاد کی تربیت کے لیے وقت نہ ہو۔اور اولاد والدین کو بوجھ سمجھتی ہو۔مختضرا یہ کہ ہر کسی کو اپنے حقوق کی تو آگاہی ہومگر ذمے داریوں سے بے پرواہ۔۔۔۔۔یقینا ایسے پاکستان کو ہم اقبال کا پاکستان تونہیں کہ سکتے لیکن اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں۔کہ مزیدوقت گنوائے تبدیلی کے لیے پر عزم ہوجائیں۔با عزت اور باشعور قوموںکی طرح زندہ رہنے کا سبق سیکھیں۔وطن کی عزت و وقار کو مقدم جانیں۔اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔تو آج بھی شایدہماری تقدیر بدلنے میں دیر نہ لگے۔ اور ہماری آزادی بھی محفوظ رہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتی ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی