شازیہ عند لیب
پارٹی ہو کوئی فنکشن ہو یا پھر کوئی تہوار اسکی تیاری کتنی ضروری ہوتی ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ مختلف خاص مواقعوں کی تیاری میں ہی گزر جاتا ہے۔سیر سپاٹے ہلا گلا اور تفریحی ٹور یہ سب سرگرمیاں ایک بھرپور تیاری کا تقاضا کرتی ہیں۔جو ذیادہ اچھی تیاری کرے گا وہی ذیادہ کامیاب ہو گا اور ایک اچھی تیاری کیا ہے کہ جس میں موقع کے لحاظ سے ہر طرح کے معاملات کا بندو بست ہو۔انسان کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لیے پہلے سے تیار ہو نہ صرف کسی موقع کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے بلکہ احساس تحفظ اور اطمینان ایک عجیب طمانیت اور خوشی کا احساس بھی جگا دیتا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج تو ہے نہیں کہ انسان ہر وقت خوشی کے مواقع کی ہی تیاری کرتا رہے اور خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتا رہے بلکہ زندگی ایک امتحان ہے اور ایسا امتحانی پرچہ حل کرنا ہوتا ہے جس کے سب سوال لازم ہیں۔اس کے علاوہ زندگی کو سفر بھی قرار دیا گیا ہے۔اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر سفر خوشگوار ہو بلکہ کئی سفر انگلش کا سفر
suffer بھی ثابت ہوتے ہیں۔اگر کسی کی زندگی میں سفر نہ ہو تو پھر اسکی زندگی کی خوشیاں صفر ہو جاتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی تیاری کی یہ تیاری نہ تو تفریحی ٹور کی ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کی بلکہ زندگی کی وہ تلخ حقیقت اور تباہ کن سلسلے پہ مبنی موقع ہے جو اکثریت کو پسند نہیں مگر پھر بھی اسکا سامنا ہر حال میں ہر کسی کو کرنا پڑتا ہے اور انسانی تاریخ اس کے بغیر ادھوری ہے۔یہ ہے جنگ کا موقع جوکہیں پر چھڑ جائے تو پھر اس علاقے کے عوام سے زندگی کی تفریحات اور معمولات چھڑوا کے رہتی ہے یہاں تک کہ انسان کہیں کا نہیں رہتا۔پھر لوگوں کو صرف اپنی جان و مال ہی بچانے کی فکر رہتی ہے۔عدم تحفظ، بے یقینی اور خوف انسانی سوچ اور اسکے معاملات کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔اس وقت دنیا تیسری نیوکلئیر جنگ کے دہانے پہ کھڑی ہے۔اسلحہ بنانے اور بیچنے والے خوش ہیں کہ انکی تجارت چمکے گی، حریف ممالک منتظر ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو مزہ چکھائیں گے جبکہ نہتے اور بے بس عوام خوفزدہ ہیں کہ نہ جانے یہ نئی مصیبت کیا رنگ لائے گی کون جیتے گا کون ہارے گا اور کون بچے گا اور کیا کیا بچے گا۔
معاملہ کچھ بھی ہو موقع کوئی بھی ہو ہر موقع پر دو را ندیش قومیں حکومتیں اور عوام اپنی سمجھداری اور تیاری سے مشکل سے مشکل حالات میں بھی ڈٹے رہتے ہیں۔اپنی اور اپنی قوم کی حفاظت کرتے ہیں جیسا کہ پچھلے دو برسوں کے وبائی حالات میں ناروے نے اپنی پیشگی تیاری کی وجہ سے صورتحال پہ جلد قابو پا لیا۔ان اقدامات کا ایک پس منظر اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ جو قومیں اور افراد دوسری قوموں اور افراد کی مشکل حالات میں مدد کرتے ہیں پھر اللہ تبارک بھی انکی مدد فرماتا ہے۔جبکہ ناروے کا شمار بھی دنیا کی بہترین فلاحی مملکتوں میں ہوتا ہے۔انکی تیاری کا عالم دیکھیں کہ چین میں سن دو ہزار نیس ماہ نومبر میں پہلے کورونا کے مریض کا ا علان ہوا۔ابھی دنیا خواب و خرگوش کے مزے لے رہی تھی وطن عزیز میں سیاسی جوڑ توڑ ہو رہے تھے مگر نارویجن حکام سر جوڑ کر میٹنگوں اور مشوروں میں مصروف تھے کہ اس وبائی مرض کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔جب پاکستانی عوام اور ارباب اختیار اس وبائی مرض پر لطیفے بنا رہے تھے اس کے گانوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور احتیاطیں کرنے والوں کا مذاق اڑا رہے تھے انہیں بزدل قراردے رہے تھے۔نارویجن حکام، دانشور اور وزارت صحت انسانی جانیں بچانے اور وباء پر قابو پانے کے اقدامات کر رہے تھے۔پھر دنیا نے دیکھا کہ جب اس کے آس پاس پڑوسی ممالک بھی اس وباء کی لپیٹ میں آ گئے ناروے نے بہت جلد اس سے پیچھا چھڑا لیا۔
یہ حفاظتی اقدامات اور تدبیر کی تازہ اور جیتی جاگتی مثال ہے۔
وطن عزیز میں اس مصیبت کے وقت میں جہاں چند لوگ ضرورت مندوں کی امداد کر رہے تھے۔وہیں تاجر برادری اور میڈیکل شعبوں کی اکثریت وبائی مرض سے پیسہ کمانے اور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اب تیسری جنگ عظیم کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو اس چھوٹے سے فلاحی ملک نے تمام اسکولوں کو الرٹ کر دیا ہے حفاظتی تدابیر کے بیانات جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے اور کم سے کم جانی نقصان تابکاری سے بچنے کے لیے تیاری شروع کر دی ہے۔ہسپتالوں میں ہنگامی میٹنگیں بلائی جا چکی ہیں۔
نیوکلئیر جنگ کیا ہے؟ یو کرائن کا ایٹمی حملہ کیسے پاس پڑوس کے ممالک کو متاثر کر سکتا ہے؟
ایک عام شخص پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟اگر ایٹمی حملہ ہو جائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟بحیثیت مسلمان ہمارا رویہ ایسے حالت میں کیا ہونا چاہیے؟ہمارا دین ایسے حالات کے بارے میں کیا کہتا ہے؟پچھلی جنگوں میں بہادر مسلمانوں اور لوگوں کا کیا رویہ رہا؟
یہ سب جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیں اور مزید تفصیلات اگلی قسط میں ملاحظہ کریں۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔