کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودی حضرت جبرائیلؑ کو اپنا دشمن اور میکائیلؑ کو اپنا دوست کیوں کہتے ہیں ؟ایسی بات جو اس بد بخت قوم کی فطرت کھول کر بیان کردیتی ہے

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہودی حضرت جبرائیلؑ کو اپنا دشمن اور میکائیلؑ کو اپنا دوست کیوں کہتے ہیں ؟ایسی بات جو اس بد بخت قوم کی فطرت کھول کر بیان کردیتی ہے

 یہودی کبھی اللہ کی پسندیدہ قوم ہواکرتے تھے لیکن تکبر فرعونیت اور شرک نے اس قسم کی بدبختی پر مہر لگا دی اور اللہ نے اسے عذاب سے دوچار کیا ہے ۔تواریخ کی کتابوں میں یہودیوں سے متعلق بہت سے ایسے واقعات درج ہیں جن میں اس ناخلف قوم کی بدخوئی اور بدنیتی کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں لیکن سب سے بڑی گواہی خود قرآن مجید نے دی ہے کہ یہودی کس ذہنیت کے مالک ہیں ۔یہودیوں نے اللہ کے انبیاءکو جھٹلایا،ان کا قتال کیا،شرک میں انتہا کردی حتٰی کہ اللہ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل ؑ کو اپنا دشمن اور حضرت میکائیلؑ کو دوست کہنا شروع کردیا ۔یہودیوں نے جب حضرت جبرائیل ؑ کو اپنا دشمن کہا تو اس پر اللہ نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا ”کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مرجانا چاہئے) اس نے تو (یہ کتاب) خدا کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے “

تفسیر ابن کثیر میں اس آیت مبارکہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت جبرائیلؑ کو اپنا دشمن اور حضرت میکائیلؑ کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔ بعض کہتے ہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی سے ان کا جو مناظرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا۔

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئے ۔آپﷺ نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاو¿ گے ۔انہوں نے آپﷺ سے وعدہ کیا اور عہد دیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے حضرت یعقوبؑ کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی۔

صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جب یہودیوں کو ان کے سب سوالوں کے صائب جواب مل گئے تو انہوں نے آخر میں پوچھا کہ اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امّی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے؟ اور اس کے پاس کونسا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے؟ اس پر آپﷺ نے فرمایا اس کی خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے ۔تمہیں اس رب کی قسم جس نے حضرت موسیٰ ؑکو تورات دی بتاو¿ تو میں نے ٹھیک جواب دیا؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپﷺ نے بالکل صحیح جواب دیا۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئے ۔اسی پر بحث کا خاتمہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا” میرا ولی جبرائیل ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام کے پاس پیغام باری تعالٰی لاتا رہا۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے؟ “ یہودیوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیلؑ ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لئے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ کی مانیں گے ،ہاں اگر آپﷺ کے پاس حضرت میکائیلؑ وحی لے کر آتے جو رحمت، بارش، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپکی تابعداری اور تصدیق کرتے ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یہودیوں کی کتابوں میں بھی حضرت میکائیلؑ کے بارے لکھا ہے کہ قوم یہود کے لئے وہ زیادہ معتبر فرشتہ تھے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں