کیا آپ کو معلوم ہے 19ویں صدی میں شاور کس بیماری کا علاج کرنے کے لئے دریافت کیا گیا؟ جان کر آپ کو یقین نہ آئے

کیا آپ کو معلوم ہے 19ویں صدی میں شاور کس بیماری کا علاج کرنے کے لئے دریافت کیا گیا؟ جان کر آپ کو یقین نہ آئے

آج ہر کوئی جانتا ہے کہ شاور نہانے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے لیکن 19ویں صدی میں یہ ایک ایسی بیماری کے علاج کے لیے دریافت کیا گیا تھا کہ سن کر کسی کو یقین ہی نہ آئے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق 1800ءمیں ذہنی مریضوں کا علاج پانی میں ڈبو کر کیا جاتا تھا اور اس طریقے کو ماہرین نفسیات ہائیڈروتھراپی کا نام دیتے تھے۔ اس طریقہ¿ علاج کا آئیڈیا دراصل 18ویں صدی عیسوی میں سے تعلق رکھتا ہے۔اس وقت فلیمش فزیشن جان بیپسٹ وین ہیلمنٹ نامی ماہرنفسیات اپنے مریضوں کو سمندر میں یا کسی تالاب میں ڈبو کر ان کا علاج کرتا تھا۔ اس کا ایک مریض فرار ہو گیا اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ اس کے پاس واپس آیا تو وہ ٹھیک ہو چکا تھا۔ مریض نے اسے بتایا کہ وہاں سے فرار ہونے کے بعد وہ حادثاتی طور پر ایک جھیل میں گر گیا۔ وہ مرنے کے قریب تھا کہ لوگوں نے اسے نکال لیا اور اس کا علاج کیا۔ اس کی جان بھی بچ گئی اور ٹھنڈے پانی کی وجہ سے اس کی ذہنی بیماری بھی ختم ہو گئی۔اس کے بعد سے وین ہیلمنٹ نے اپنے مریضوں کو سمندر، جھیل یا تالاب وغیرہ میں ڈبونا شروع کر دیا۔ وہ مریضوں کو برہنہ کرکے ان کے ہاتھ پاﺅں باندھتا اور رسی کے ذریعے سر کے بل پانی میں ڈبو دیتا۔ کئی مریض اس طریقہ علاج میں جان کی بازی ہار جاتے اور کئی خوش قسمت بچ رہتے۔

1800ءمیں ڈاکٹروں نے ا س سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ٹھنڈا پانی سر میں پڑنے سے مریض ٹھیک ہوتا ہے چنانچہ انہیں پوراپانی میں ڈبونے کا رواج ختم ہو گیا۔ اب ڈاکٹر مریضوں کو کئی کئی گھنٹے، حتیٰ کہ کئی کئی دن باندھ کر نہلاتے، کئی ایسے شکنجے بنائے گئے جن میں مریضوں کو کس کر ان کے سر پانی میں ڈبوئے جاتے۔ یوں اس طریقہ¿ علاج میں جدت آتی گئی اور بالآخر اس کے لیے شاور ایجاد کیا گیا، جو مریضوں کے سر کی طرف لگا دیا جاتا اور اس سے سر پر مسلسل پانی ڈالا جاتا تھا۔یہ طریقہ 1900ءکے اوائل تک مروج رہا، بعد ازاں اس ہائیڈروتھراپی کی جگہ الیکٹروشاک تھراپی جیسے طریقے آ گئے اور ہائیڈروتھراپی کے لیے ایجاد ہونے والا شاور باتھ رومز کی زینت بن گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں