کیا اس لیے آزادی حاصل کی تھی تاکہ………

انتخاب طاہرہ شیخ
بعض منظر بڑا دھوکہ دیتے ہیں۔ صحرا میں چمکتے دلربا سراب کی مانند ۔ جیسے کہ شاندار روشنیوں سے سجے مال کے باہر لگا وہ عظیم الشان بل بورڈ جہاں خوبصورت دیدہ زیب لباس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے دو نوجوان جوڑے ، ایک کے ہاتھ میں گٹار جس کی دھن سے یقیننا باقی سب لطف اندوز ہو رہے تھے اور ساز کی آواز تھی feast on your independence۔

اپنی آزادی کا اس سے بڑھ کے کیسے لطف اٹھایا جا سکتا ہے کہ اونچے دمکتے روشن مال کی خنک فضا میں گل احمد کے خوبصورت ملبوسات کی خریداری کی جائے۔

یہی تو وہ آزادی تھی جس کی تلاش میں پاکستان کا قیام ہوا۔ اگر ہندوستان ہی ہوتا تو کہاں اس آزادی کے ساتھ کہ نعرہ تکبیر ، اللہ اکبر گلوکار چیخ چیخ کے موسیقی کے ہمراہ پڑھتا ہو ، پاؤں پٹخ پٹخ ناچتا ہو اور اس کی لے پر ہماری اجلی پیاری دلاری بیٹیاں چست پاجاموں ، کھلے چاکوں ، بے دوپٹہ مال میں 25٪ آف کی تلاش میں ماری ماری J ڈاٹ سے sapphire سے بونینزا ست رنگی کے چکر کاٹتی پھرتیں۔

حسین ماحول میں جگہ جگہ آویزاں آئینوں میں اپنا سراپا جانچتیں کے کترینہ کپور سے کم تو نہیں ، اسی آزادی کی تلاش میں تو تھے ورنہ ہندوستان میں یہ کیسے یہ نصیب ہوتی۔ گھر آ کے نئی انڈین مووی دیکھتیں اور پھر گوانڈی گوانڈی کا دلفریب نغمہ بشری انصاری کے ٹھمکوں کے ساتھ سنتیں کہ جنگ کا علاج تو ایٹم بم اٹھا کہ پھینکنا ہے ورنہ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ دو پڑوسی جن کا سب کچھ سانجھا ۔

بنی اسرائیل نے ساگ ککڑی کا سوال کیا تھا۔۔۔
غلامی کی غذائیں یاد کرتے تھے ؟؟

اس غذا کے ساتھ ذلت، رسوائی ، بیٹوں کا مارا جانا لکھا تھا،
پھر وہ کیسی مائیں تھیں کہ ہجرت کے بعد بچوں کو انہی غذاؤں کے سہانے قصے سناتیں کہ وہ مسکنت اور رسوا کن زندگی سے وابستہ کھانوں کا سوال کر بیٹھے۔

ماؤں نے اگر بتایا ہوتا ،
ان کرب ناک لمحوں کا دکھ نسلوں میں اتارا ہوتا تو وہ صحرا کی مٹی کھا لیتے لیکن اس غلامی سے وابستہ کسی شے کا خیال بھی دل میں نہ لاتے۔

ہم سے کہیں تو کوتاہی ہوئی !!!!
تربیت کے پیمانے کہیں تو بگڑے !!!

Peace without borders
کی ورکشاپ کا جائزہ لیجیے،
دوکانوں پہ بکتی انڈین جیولری اور ساڑھیوں کی شان دیکھیے،
پارلرز میں ہیئر اسٹائلز کی چانچ کریے،
یونیورسٹیز ، کوچنگ سینٹر کا ایک وزٹ کیجیے،
اسکولوں میں ٹیلنٹ شوز میں انڈین گانوں کی دھن پہ تھرکتے شو دیکھیے،
انڈیا کے میچ ہارنے پہ اپنے نوجوانوں کا والہانہ رقص دیکھیے،
نیلم احمد بشیر کے لکھے ہمسائے ماں جائے گانے کے الفاظ پڑھیے۔۔۔۔

اور،

پھر بسمل کشمیر کا نوحہ سنیے۔۔۔۔
اجڑی مانگوں کی پکار سنیے۔۔۔
اٹھتے جنازوں کی لرزا دینے والی اذیت سنیے۔۔۔
روح کانپ اٹھے گی،
دل تھرا جائے گا۔
کیسا میٹھا زہر ہے جو نس نس میں لگایا گیا۔
اور اب رنگ دکھلا رہا ہے۔۔۔

کیا کرنا تھا؟
کیا کیا!
ہارے تو کیسے ہارے!
جیتے تو کہاں جیتے ؟

اور آگے کے لیے کیا ہے؟
صرف سوشل میڈیا کی پوسٹ۔۔۔
چند دن کا جوش و جذبہ۔۔۔

یا واقعی کچھ اور؟

آئیے۔
آج کے لیے صرف کچھ کام ہی طے کر لیں ۔۔

اپنے گھر میں موجود بچوں کو کہانی سنائیں ۔دو قومی نظریے کی، خون سے بھری کٹے پٹے جسموں سے لدی ان ٹرینوں کی جو لوٹتی تھیں۔

ٹوٹ جانے والے دل ، اپنے ڈھاکہ کی۔۔۔

قرآن اور حدیث سے جوڑیں۔

قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سنائیں۔

اقبال کا کلام یاد کرایں۔

بائیکاٹ کریں انڈیا مصنوعات کا ، انڈین موویز کا۔ ان رسومات کا جو وہاں کی یادگار ہیں۔

اپنے بجٹ میں سے حصہ نکالیں ، کشمیر فنڈ کے لیے۔

بات کریں۔ جہاں موقع ملے ۔۔۔

اور پھر اس سب کے ساتھ،
دعائے شب کی تاثیر نہ بھولیں ۔

~~`مریم روشن

اپنا تبصرہ لکھیں