ڈاکٹر علیم خان فلکی۔ جدہ،
قربانی کی عید جیسے جیسے قریب آرہی ہے ہر طرف سے سوالات کی بوچھار ہورہی ہے۔ اور جواب دینے والوں کو اللہ ہمت دے، جواب بھی دے رہے ہیں۔ جیسے بکرے کی عمر کیا ہو، اسکے ہونٹ کیسے ہوں ، دانت کیسے ہوں؟ کان کیسے ہوں اور ٹانگ کیسی ہو وغیرہ۔ نوّوے فیصد سوالات اسی قماش کے ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمادیا کہ
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ سورۃ الحج آیت ۳۷
کہ نہ ان کا گوشت اللہ تک پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون ہاں البتہ اس تک تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اتنے واضح جواب کے بعد سارے سوالات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ اصل چیز تقویٰ ہے۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تقویٰ کیا ہے۔ لیکن اس سے فرار حاصل کرنے کیلئے عجیب عجیب سوالات پیدا کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح بنی اسرائیل اصل حکم سے فرار حاصل کرنے کیلئے سوالات کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ واضح ارشاد ہے کہ نہ گوشت اہم ہے نہ خون، بلکہ یہ قربانی پیش کرنے والے کا تقویٰ اہم ہے۔ اگر تقویٰ ہے تو یہ قربانی سنّتِ ابراہیمی ہے ورنہ ہولی دیوالی اور کرسمس کی طرح بڑی مذہبی شخصیات کی یاد میں منائی جانی والی عیدوں کے سوا کچھ اور نہیں۔ ہاں لوگ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ دوسروں کے تیوہاروں میں مال، وقت اور وسائل کا زیاں ہوتا ہے جبکہ ہماری عید میں غریبوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ جناب ۔۔۔۔۔ اگر بکرے کاٹنے سے غریبوں کا فائدہ ہی مقصود ہوتا تو اللہ تعالیٰ بکرے کی پوری قیمت ہی غریبوں میں تقسیم کردینے کا حکم دیتے۔ جب اللہ کو نہ گوشت پہنچتا ہے نہ خون تو ایک ہی دن میں لاکھوں جانوروں کو ذبح کرڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ضرورت ہے۔ جس قربانی کا صرف تقویٰ ہی اللہ کو پہنچتا ہے اسکی علامت ہی ذبیحہ ہے۔ اسلئے ذبیحہ تو بہرحال لازمی ہے۔ اب سوال یہ ہیکہ بکرے کو ذبح کرنے کا تقویٰ بھلا کیا ہوسکتا ہے۔ یہ تقویٰ کیا شئے ہے؟ تو یاد ریکھئےہر عبادت کے پیچے اللہ کو تقویٰ مقصود ہے ۔ ہر عبادت کا ایک تقویٰ ہے۔ مثلاً نماز کا تقوی اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمنْکَرِ (عنکبوت:۸۵)(بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے) کہجس طرح اذان کے ساتھ ہی مسجد کیلئے نکلنا تقویٰ ہے اسی طرح کوئی بھی برائی یا فحش یعنی حرامکاریاں دیکھتے ہی ان کو مٹانا کیلئے اٹھ کھڑا ہونا اقام الصلوٰ ٰۃ کا تقویٰ ہے۔ اگر یہ نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کو آپ کے رکوع اور سجدے درکار نہیں ہیں۔ اسی طرح روزوں کا تقویٰ ہے۔ یعنی اپنی زبان کی حفاظت۔ زبان سے کوئی جھوٹ نہ نکلے۔ کوئی غیبت، گالی، طعنہ، حسد یا جلن کی بات نہ نکلے۔ سحر حلال کمائی سے ہو اور افطار حلال کمائی سے ہو۔ اگر یہ سب نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مجھے نہ تمہارے بھوکا رہنے کی ضرورت ہے اور نہ پیاسا رہنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح قربانی کا بھی تقویٰ ہے۔ قربانی کا تقویٰ قربانی کی نیّت میں پوشیدہ ہے۔ اگر نیّت سچی ہو تو ذبیحہ کا پہلا قطرۂ خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اسکی قربانی بھی قبول ہوجاتی ہے اور بندہ اللہ کے ہاں اپنا مقام پالیتا ہے۔ وہ نیّت کیا ہے؟ ۔۔۔۔۔ یہ نیّت وہ نہیں جو کسی پمفلٹ سے رٹ کر ہم پڑھ لیتے ہیں اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر چُھری چلاتے ہیں۔ بککہ یہ نیت وہ ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں بیٹے کے گلے پر چھری رکھتے وقت تھی۔
آج ہم جس جوش و خروش سے پوری عقیدت کے ساتھ جانور ذبح کرتے ہیں۔ اچھا گوشت صمدھاووں میں بھیجتے ہیں۔ غریبوں میں بچا ہوا گوشت تقسیم کرکے کلیجی اور گُرُدے گھروں میں تل کر کھاتے ہیں ۔یہ سارے کام سنّتِ ابراہیمی کے ثواب کے احساس کے ساتھ انجام دیئے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بکرا ذبح کرنا ابراہیم ؑ کی سنّت تھی؟ جی نہیں۔۔۔۔ نہ یہ ابراہیم ؑ کی سنت ہے اور نہ ان کا بکرا ذبح کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔ ان کا ارادہ تو کچھ اور تھا۔ ان کا ارادہ تو حکمِ الٰہی کی تعمیل میں بیٹے کی جان کی قربانی پیش کرنے کا تھا۔ جب انہوں نے آنکھوں پر پٹّی باندھی اور چھری چلادی اُس لمحے تک بھی ان کے دل و دماغ میں ایک ہی نیّت گونج رہی ہوگی کہ ائے اللہ تیرے حکم کے آگے میں اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتا ہوں اسے تو قبول فرما۔ اس کے بعد جب آنکھوں سے پٹّی نکالی تو پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ کو اُن کے بیٹے کی جان نہیں چاہئے تھی بلکہ وہ تقویٰ چاہئے تھا کہ بندہ اولاد کو بھی اللہ کی خوشنودی کیلئے قربان کرنے کیلئے دل سے تیار ہوتا ہے یا نہیں۔ اس طرح پتہ چلا کہ سنّتِ ابراہیمی بکرا ذبح کرنا نہیں ہے بلکہ بیٹے کو ذبح کرنا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے بجائے اولاد کے ، بکرے کو متبادل کردیا لیکن نیّت وہی باقی رکھی جو ابراہیمؑ کی تھی۔ یہی ہے قربانی کا تقویٰ جو مذکورہ آیت میں کہا گیا کہ بندہ اُس نیت کو اچھی طرح سوچ لے، سمجھ لے اور یہ طئے کرکے چھری چلائے کہ ائے اللہ اگر تیرا حکم ہو تو میں یہ جانور ہی کیا اپنی اولاد کو بھی تیرے حکم کے آگے قربان کرسکتا ہوں بسم اللہ اللہ اکبر۔ پھر جب یہ گوشت گھر گھر جائیگا تو یہ اعلان بھی ساتھ جائیگا کہ بھیجنے والے نے اللہ کے حکم کے آگے اپنی اولاد کو بھی اس بکرے کی طرح قربان کردینے کا عزم کرلیا ہے۔
یہ ہمت، عزم اور حوصلہ بندے کے دل میں اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ ابراہیم ؑ کی سیرت کو پڑھے۔ بکرے کی قربانی پہلی اور آخری قربانی نہیں کہ اِدھر بکرا ذبح ہوا اور اُدھر جنت آپ کے نام لکھ دی گئی۔ اور یہ بھی یاد رکھئے کہ بکرے کی قربانی کا عوض صرف جنت ہی نہیں بلکہ اس سے اللہ تعالیٰ کو اس دنیا کی امامت یعنی لیڈرشِپ عطا کرنا مقصود ہے۔ اگر دل میں وہ نیّتِ ابراہیمی نہ ہو ، محض ایک رسمی عبادت ادا کرنے کی جستجو ہو تو لیڈرشپ تو دور کی بات ہے چپراسی گیری بھی عطا نہیں ہوتی۔ سیرتِ ابراہیمی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اولاد کی قربانی تو آزمائش کی آخری سیڑھی ہے۔ اس سے پہلے جن قربانیوں سے ہو کر گزرنا لازمی ہے ان میں سب سے پہلے یہ کہ اگر مانباپ شرک پر مجبور کریں تو مانباپ اور گھر کو چھوڑنا فرض ہے۔ اس کے بعد اگر زمانے کے رسم و رواج آپ کو اللہ کے حکم پر چلنے سے روکیں تو شہر چھوڑ دینا ہے۔ پھر حکمران اور قانون اگر آپ کو سزائے موت دیتے ہیں تو شعلوں میں کود جانا ہے لیکن کفر کے آگے سر نہیں جھکانا ہے۔ اور وہ مجبور کریں تو ملک بھی چھوڑ دینا ہے۔ یہیں پر قربانیوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ آگے اگر اللہ کا حکم ہو کہ بیوی اور گود کے بچے کو لق و دق صحرا میں تنِ تنہا چھوڑ کر نکل جاو تو نکل جانا ہے۔ یہاں بیوی کی قربانی یہ ہے کہ اگر شوہر اللہ کا حکم سنادے تو بغیر کسی حجّت، تکرار یا سوالات کے پورے توکّل اور فرمانبرداری کے ساتھ سر جھکا دینا ہے اور آخری آزمائش یہ ہے کہ اولاد کو قربان کردینے کا حکم ہو تو وہ بھی پوری رضامندی کے ساتھ کرڈالنا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے یہ ساری قربانیاں پیش کیں۔ جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ انعام پیش کیا جس کو حاصل کرنے کی جستجو کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یعنی اس دنیا کی امامت۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے (سورہ بقرہ)
وإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا (124)
کہ‘‘اور جب ابراھیم کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نےانہیں پورا کر دیا فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا امام بنادوں گا۔ یہ امامت کیا ہے۔ یہ دنیا کی قیادت ہے۔یہ ہر مسلمان کا منصب ہے۔ آج ہم نے فقہی مسائل کو اصل دین بنادیا جس کی وجہ سے امامت کے معنی کہیں گم ہوگئے۔ ہم بکرے یا گائے یا اونٹ کاٹنے کو سنّتِ ابراہیمی سمجھنے لگے۔ اسی لئے بے شمار بے تُکے سوالات پوچھنے لگے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ دنیا کی امامت کیسے حاصل کی جائے۔ اور نہ کوئی یہ بتاتا ہے کہ دنیا کی امامت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہی اصل دینِ ابراہیمی ہے۔ اس لئے کہ امت میں قدم قدم پر ہر گلی اور ہر شہر میں قسم قسم کے امام پیدا ہوچکے ہیں۔ مسلکوں کے امام، فرقوں کے امام، درگاہوں، خانقاہوں اور سلسلوں کے امام، مسجدوں، امام باڑوں اور عزّا خانوں کے امام۔ دنیا کی امامت کا نہ کسی کو شعور ہے اور نہ جستجو۔ نہ یہ کسی مدرسے کے نصاب میں شامل ہے اور نہ کسی سلسلے کے منازلِ سلوک میں اسکی تربیت دی جاتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا کی امامت کہیں امریکہ کررہا ہے تو کہیں روس، کہیں آر یس یس کررہی ہے تو کہیں موساد، کہیں میڈیا کررہا ہے تو کہیں گھر گھر ٹی وی، کہیں کرکٹ تو کہیں فٹ بال، بچہ بچہ کارٹونوں، پی ایس تھری اور پی ایس فور یا ایچ باکس کی امامت میں بڑا ہورہا ہے۔ہم کو اس دنیا کی امامت کیلئے پیدا کیا گیا تھا لیکن نہ ہمیں امامت کے معنی سمجھائے گئے اور نہ اس کے طریقے بتائے گئے۔ ہم نے اپنے آپ کو دنیا کے دوسرے اماموں کے سامنے سبکدوش بلکہ سپرد کردیا۔ جس کی وجہ سے آج ہم جس مقام پر پہنچے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ عرب امریکہ کی امامت میں تقلید کررہے ہیں۔ ان کے پیچھے سیاسی نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ امام غلطی کرے تو انہیں لقمہ دینے کی ہمت نہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ لقمہ دینے کا انجام وہی ہوگا جو صدّام اور قذافی کا ہوا۔ آر یس یس ہندوستان کی امامت کررہی ہے۔ پاکستانیوں کی اخلاقی ، سماجی اور سیاسی صورتِ حال کیا ہے؟ کس کی امامت میں یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ خود سعودی عرب میں ‘‘اصل اسلام’’ کی حالت ایک بغیر اقامے کے غیر قانونی بنگلہ دیشی کی طرح ہے۔ کیوں؟ ۔۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ ۔۔۔۔ کیونکہ ہم رکوع و سجود تو کررہے ہیں، روزوں کی بھوک پیاس توخوشی سے جھیل رہے ہیں، حج اور قربانی تو کررہے ہیں۔ ہزاروں جانوروں کا خون بہاکر گوشت تو تقسیم کررہے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ خود کہہ رہا ہےکہ مجھے نہ تمہارے رکوع و سجدے درکار ہیں نہ بھوک پیاس، نہ گوشت مجھے پہنچتا ہے نہ خون، مجھے توان عبادتوں کے پیچھے تقویٰ چاہئے جو ہم سمجھنا نہیں چاہتے۔
دوستو؛ جو ہو چکا اسے بھول جایئے ۔ آیئے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک بارگڑگڑا کر استغفار کریں، رجوع کریں۔ ایک بار سنّتِ ابراہیمی کو سچے دل سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ نئے سرے سے اُن کی سیرت سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ آدمی اولاد کی خاطر ماں باپ، شہر، ملک حتی کہ بیوی کو بھی قربان کرسکتا ہے لیکن اپنی اولاد کو نہیں۔ لیکن سیرتِ ابراہیمی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جس بندے کے دل میں یہ مصمّم ارادہ پیدا ہوجائے کہ وہ اللہ کے حکم کے آگے اولاد کو بھی ذبح کرسکتا ہے اس بندے کیلئے آگ کے شعلے گلزار بن جاتے ہیں۔ بچے کے پاوں سے زم زم نکل پڑتا ہے۔ بیوی کے دل میں خودبخود اللہ کی اور شوہر کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اولاد خودبخود فرمانبردار نکلتی ہے۔ جب بیوی شوہر کی فرمابردار ہوجائے، کوئی بحث و حجّت نہ کرے تو ایسی بیوی کی کوکھ سے ولی اور مجاہد پیدا ہوتے ہیں اُسی طرح جس طرح بی بی ہاجرہؑ کی کوکھ سے پیغمبروں کا سلسلہ پیدا ہوا ہے۔ اور بیٹے فرمانبردار نکلیں تو ان سے نبیوں کا سلسلہ چلتا ہے۔
جس گھر میں باپ یہ سچی نیت کرکے قربانی پیش کرے کہ وہ اللہ کے حکم کے آگے اولاد کو بھی قربان کرنے کی ہمّت رکھتا ہے تو اس گھر میں اولاد کی پرورش اور ترقی کی خاطر حرام کمائی جیسے رشوت، چوری، فریب، سود اور فریب کی کمائی داخل نہیں ہوسکتی اور نہ کبھی شرک داخل ہوسکتا ہے۔ جس گھر میں بیٹے کی نیّت قربانی دیتے ہوئے یہ ہو کہ اللہ کے حکم کے آگے میں بھی اپنا گلا اسی طرح پیش کردوں گا جس طرح اسماعیل نے کیا جس طرح اِس بکرے کی گردن میرے ہاتھ میں ہے تو اُس گھر میں زمانے کے رسم و رواج کا دین داخل نہیں ہوسکتا ، کبھی اُس گھر میں جوڑا جہیز، کھانے، اسراف اور تبذیر داخل نہیں ہوسکتے۔ جس گھر میں عورت کی طرف سے اُسی نیّت کے ساتھ قربانی ہو جس نیّت سے بی بی ہاجرہؑ نے اسماعیل ؑ کو پالا تھا اُس گھر میں کبھی ‘‘لوگ کیا کہیں گے’’ کی لعنت داخل نہیں ہوسکتی۔
دوستو؛ یہ قربانی کوئی معمولی عبادت نہیں ہے۔ یہ ہولی ، دیوالی یا کرسمس کی طرح بے مقصد ہنگامہ نہیں ہے۔ یہ ایک انقلاب لانے والی عید ہے۔ یہ ایک عظیم جہاد کیلئے تیار کرنے والی عید ہے۔ یہ مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی امامت کو دوبارہ واپس لانے والی عید ہے۔ قرب کے لفظی معنی ہیں کسی سے محبت و وارفتگی کے ساتھ قریب ہوجانا۔ جو چیز قریب کرتی ہے اُسے قربانی کہتے ہیں۔ ایک بار جو سچے دل سے اللہ کے قرب کی خاطر اپنی اولاد کو بھی ذبح کرنے کی ہمّت پیدا کرلے اس کی قربانی کی قبولیت کی بشارت اللہ کے رسول ﷺ نے یوں فرمائی ہے کہ ‘‘انھا لتأتی یوم القیامۃ بقرونھاو اشعارھا و اظلافھا وان الدم لقع من اللہ بمکان قبل ان یقع من الارض فطیبوا بھا نفسا ’’ یعنی ‘‘بے شک یہ (قربانی کا جانور) قیامت کے روز اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیگا اور بے شک خون اس سے پہلے کہ زمین پر گرے اللہ کے ہاں (آدمی) اپنا مقام پالیتا ہے۔ پس تم اسے (قربانی کو) خوش دلی سے دیا کرو’’۔ (ترمذی و ابن ماجہ ، کتاب الاضاحی، باب ماجا فی فضل الاضحیۃ) اللہ اکبر۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنّت ابراہیمی کو مکمل نیّتِ ا براہیمی کے ساتھ ادا کرنے والا مسلمان بنائے۔ آمین۔ و آخر دعونا عن الحمد لللہ رب العلمین۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی۔ جدہ، سوشیو ریفارمس سوسائٹی