کیا صبح سویرے اٹھنا ضروری ہے؟
سید مسعود الحسن زیدی
بات کبھی بھی ہماری سمجھ میں نہیں آ ئی کہ صبح سویرے اٹھنا کون سی خوبی کی بات ہے! البتہ مرغوں کی یہ خاصیت ضرور ہے اور وہ بھی مجبور ہیں اس لئے کہ انہیں اذان دینی ہوتی ہے۔ قدرت خود نہیں چاہتی کہ صبح اٹھا جائے۔ گرمیوں کی راتیں اس قدر چھوٹی بنائی گئی ہیں کہ اگر آپ صبح سویرے اٹھیں بھی تو آپ کی نیند پوری ہو ہی نہیں سکتی۔ جاڑوں کی رات لمبی ضرور ہے۔ لیکن اگر آپ اٹھنا بھی چاہیں تو سردی کے مارے آپ بستر سے اٹھ نہیں سکتے۔ اب رہ گیا برسات کا موسم، تو اس میں ہوا اس قدر نیند آور، نیند پرور چلتی ہے کہ آنکھ کھلنے کا سوال ہی نہیں۔ اگر آپ کو صبح دیر تک سونے کی لذت کا پتہ لگ جائے تو آپ کبھی جلدی اٹھنے کی حماقت نہیں فرمائیں گے۔ صبح سویرے اٹھنا طریقہ ہے فوجیوںکا یا مجبور لوگوں کا۔ شاہانہ طبیعت والے رئیسوں کے یہاں رت جگا رات دو بجے تک اور پھر خوب دن چڑھے تک سونا۔ انگریز قوم نے ہمیں ورغلانے کے لئے ایک مثل نکالی ہےEarly to bed and early to rise makes a man healthy, wealthy and wise (اگر آپ جلدی سوجائیں اور جلدی صبح اٹھیں تو آپ صحت مند، امیر اور عقلمند بن جائیں گے)چلیے پہلی بات تو ہم نے مان لی کہ صحت اچھی ہوجائے گی۔ لیکن کیا خالی صحت کو لے کر چاٹیں! ڈنڈ پیلنے ہیں! دولت مندوں کو ہمیشہ ہم نے دیر تک صبح سوتے دیکھا اور عقل بھی پیسے والوں کے پاس ہوتی ہے۔ اگر جناب پیسے سے ٹوٹے ہوئے ہیں اور عقل کی بات بھی کریں تو کوئی آپ کی بات نہ مانے گا اور نہ آپ کو عقلمندی کا سرٹیفکیٹ دے گا۔آپ ہمارے شہر کو لے لیجیے۔ بدقسمتی سے لوگ جلدی سوتے ہیں اور صبح سویرے ہی اٹھ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اگر آپ گنتی کریں تو زیادہ ہم جیسے مفلس پائیں گے۔ ادھر کراچی شہر ہے جہاں رات مشکل ہی سے آتی ہے۔ کوئی وقت ہو، دن نکلا رہتا ہے۔ چوبیس گھنٹے چہل پہل ہے۔ لوگ مالامال ہیں۔ ایک دن صبح سویرے اٹھ کر گھر سے باہر سڑک پر گھومنے نکل جائیے۔ یقین کیجیے کوئی جوان مرد یا عورت پر آپ کی نظر نہیں پڑے گی۔ بڈھے ٹھڈے چھڑی کا سہارا لئے لمبے لمبے سانس اوپر کو کھینچتے ہوئے ٹکرائیں گے۔ تو کیا کسی حکیم نے نسخہ میں ان کا شربت ِدیدار لکھا ہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بورڈنگ ہائوس میں رہتا تھا۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ احباب کا فیصلہ بالکل غلط ہے اور یہ بکواس کررہے ہیں۔ لیکن جب یاروں نے طے کردیا کہ کل سے صبح سویرے سیر کو جانا ہے تو ہم بھی کڑوی کونین کی گولی کھانے کو مجبور ہوگئے۔ لیکن ہماری یہ درخواست قبول کرلی گئی جب ہم نے ان سے عرض کی کہ جناب کس قدر ظلم ہے کہ کڑاکے کے جاڑے میں آپ یہ مصیبت ہمارے اوپر نازل فرما رہے ہیں۔ کل کا دن چھوڑئیے۔ بندوق کارتوس کا انتظام کیجیے تاکہ دوچار پرند از قسم کبوتر وغیرہ کو لوٹا کریں تاکہ دماغ پر بوجھ نہ رہے کہ ہم سیر کے لئے اتنے صبح سویرے اٹھے ہیں۔ کلیم الرحمن شام کو ہی بندوق اپنے گھر سے اٹھا لائے اور ہم جو سمجھتے تھے کہ کچھ دن تو کم از کم یہ مصیبت ٹلی رہے گی، وہ نہ ہوسکا۔یہی سنتے آئے تھے کہ صبح 4 بجے ہوتی ہے۔ اس لئے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی جو تجربہ ہوتا۔ بعد میں پتہ چلا کہ صاحب یہ تو گرمیوں کا ٹائم ٹیبل ہے۔ یارانِ طریقت سے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ بھائیو! صبح اٹھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ سویا ہی نہ جائے۔ اور یہی کیا گیا۔ ساری رات تاش کھیل کر کاٹی۔ چائے چلتی رہی، گپ شپ لڑتی رہی اور تین بجے نکل کھڑے ہوئے۔ طے یہ ہوا کہ قلعہ چلا جائے۔ قلعہ یونیورسٹی سے کوئی دو میل ہوگا۔ یہ قلعہ مہاراجہ گوالیار نے بنایا تھا۔اگرچہ کچا تھا لیکن بڑا مضبوط۔ چاروں طرف کوئی 20گز چوڑی کھائی تھی، جس میں ببول کے خودرو درختوں کا جنگل کھڑا تھا اور برسات کا پانی اس کھائی میں بھرا رہتا تھا۔ سندھیا کی فوج کا کمانڈر ایک فرانسیسی تھا جس کا نام جرنیل پیرون تھا۔ اس کی کوٹھی جس میں وہ رہتا تھا، سوئمنگ باتھ کے قریب تھی۔ اور کبھی بہت بڑا باغ ہوگا۔ کالج والوں کو یہ جگہ مل گئی تھی۔ دروازے پر ملحقہ مکان جرنیل پیرون کا تھا، جس پر ابھی تک پتھر کی تختی پر اس کا نام اور تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ بقیہ ایک طرف ہندو لڑکوں کے لئے بورڈنگ ہائوس بنادیا تھا۔ بیچ میں ایک بڑی سی عمارت تھی، اس میں بھی لڑکے رہتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا علاقہ مہاراجہ سندھیا کا تھا۔ 1803 میں لارڈ لیک (Lord Lak) نے سندھیا کی فوجوں کو شکست دے کر علیگڑھ (کول) پر انگریزی جھنڈا لہرا دیا تھا۔ اکثر گرمیوں میں رات کو علیگڑھ میں دور سے گولے چلنے کی سی آوازیںآتی تھیں۔ ہوسکتا ہے آس پاس کے گائوں میں شادی بیاہ کے موقع پر آتش بازی کے گولے داغے جاتے ہوں۔ لیکن ہم لوگ یونیورسٹی اور شہر والے کہتے تھے کہ گولوں کی آواز قلعہ سے آتی ہے، پرانے زمانے کے قلعہ میں دبے ہوئے گولے گرمی کی وجہ سے کبھی کبھی زمین کے اندر پھٹتے ہیں۔چونکہ یہ باغ جنرل پیرون کی کوٹھی کا حصہ تھا۔ لوگ کوٹھی ووٹی کو بھول گئے مگر یہ جگہ صاحب باغ کہلاتی تھی۔ قلعہ بالکل سنسان جگہ واقع تھا۔ ان ببولوں میں کبھی کبھی چور چھپ کر چوری کا سامان تقسیم کرتے تھے اور اگر کوئی بھولا بھٹکا آجاتا تو اس کو لوٹ لیتے۔ قلعہ کی کھائی میں چونکہ پانی بھرا تھا اور سردیوں کا موسم تھا اس لئے گمان یہ تھا کہ مرغابیاں اس پانی پر ضرور آتی ہوں گی۔قلعہ کے لئے میں، غلام محمد، مظہر چوہی، کلیم الرحمن، ناصر شاہ میر، بھائی وہاج اور مولانا مختار جمیل چل کھڑے ہوئے۔ چاندنی رات تھی۔ سب لوگوں نے گرم اوورکوٹ اور مفلر لپیٹ رکھے تھے۔ مولانا مختار جمیل نے جن کی خاصی لمبی داڑھی تھی، مفلر منہ پر لپیٹ کر ان ٹھگوں کی یاد تازہ کردی جن کی تصویر تاریخ کی آٹھویں کتاب میں دیکھی تھی اور جن کا خاتمہ لارڈ ولیم بینٹینگ (Lord William Bentang) نے کیا تھا۔ چار بجے سے پہلے ہم لوگ قلعہ پہنچ گئے لیکن دن نکلنے کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ ہم لوگوں میں مولانا پکے نمازی تھے۔ انہوں نے ہم لوگوں کو مطلع کیا کہ آجکل دن کوئی 6 بجے کے قریب نکلتا ہے۔ دو گھنٹے گزارنے کے لئے ایک ببول کے پیڑ کے نیچے پڑائو ڈال دیا۔ دوستوں کی ٹولی میں وقت گزرنے میں کیا دیر لگتی ہے۔ میرے خیال میں پانچ بج چکے تھے کہ ایک دیہاتی اپنے ٹٹو پر سوار ایک خالی ٹین کا کنستر رکھے ان ببولوں کے کونے میں جو پگڈنڈی گزر رہی تھی اس پر شہر جانے کے لئے آرہا تھا۔ ہم لوگوں نے تو اس کو دیکھا نہیں لیکن وہ ہماری آوازوں سے سمجھ گیا کہ یہاں درختوں میں آدمی ہیں اور جیسا کہ مشہور ہے چور ہی ہوں گے۔ اس نے کھیت سے ملی ہوئی مینڈ پر راستہ کاٹ کر گزرنا چاہا، لیکن وہ خاصی اونچی تھی، اور جب ٹٹو اس پر اچکا تو یہ بیچارہ ٹین سمیت زمین پر آرہا۔ یار لوگ دوڑ پڑے اور اس کو جا دبوچا۔ وہ ڈر کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔ انہوں نے کہا: “نکال تیرے پاس کیا ہے؟ اس غریب کے پاس کل ساڑھے تین آنے تھے، کہنے لگا:” شہر سے راب لینے جارہا ہوں جو میں لالہ سے ادھار لاتا ہوں۔ “یہ لوگ اس کو پکڑ کر میرے پاس لے آئے اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے: سردار ہم شکار لے آئے ہیں۔ آپ کو آدمی کے دل کی ضرورت تھی۔” میں نے کہا: کھڑا کرو اس کو سامنے۔ وہ رونے اور گڑگڑانے لگا، کہنے لگا: مجھے جان سے مت مارو، مجھے چھوڑ دو۔میں نے کہا: پرسوں ایک کو چھوڑ دیا تھا، اس نے پولیس میں مخبری کردی۔ تجھے نہیں چھوڑا جائے گا۔اس کا ایک بازو مولانا نے پکڑا ہوا تھا اور دوسرا کلیم نے۔ میں نے پہلے اطمینان کرلیا تھا کہ بندوق کی نال میں کارتوس تو نہیں ہیں۔ جب بندوق کندھے پر رکھ کر نال اس کی طرف کی تو وہ بے ہوش ہوگیا۔ اب بڑی مشکل پڑگئی کہ کہیں ایسا نہ ہو یہ خوف سے مر ہی جائے۔ ہم لوگوں نے چلا چلا کر کہا کہ بھائی ہم تو کالج کے لڑکے ہیں مذاق کررہے ہیں۔ وہ غریب جب ذرا ہوش میں آئے ہم لوگوں کو دیکھ کر پھر بے ہوش ہوجائے۔ اس پریشانی میں دن نکل آیا، پھر کہیں جاکر وہ سنبھلا، لیکن اس کو جان بچنے کی اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ اپنے کام سے شہر جانے کو تیار ہی نہ ہوا اور ہمارے ساتھ مرغابیوں کے شکار میں شریک رہا۔ اتفاق سے ایک سرخاب مارا۔کوئی گیارہ بجے ہم کمرے میں واپس آگئے۔ ہم نے صبح اٹھنے سے توبہ کی اور سیر کا قصہ ختم ہوگیا۔چار پانچ دن بعد شام کو بندوق لے کر قلعہ کی طرف گئے اور گھومتے پھرتے قریب ہی ایک گائوں تھا وہاں جاپہنچے۔ گائوں کے لوگوں نے ہم سب سے کہا آپ لوگ قلعہ کے جنگل سے احتیاط رکھیں اس میں آج کل ڈاکو آئے ہوئے ہیں، آج چوتھا دن ہے، ہمارے گائوں کے موہن اور ان کا مقابلہ ہوگیا۔ اگرچہ ہمارے آدمی کے پاس لٹھیا تھی لیکن پھر بھی ان کو زخمی کرکے اپنے ٹٹو پر بھاگ آیا۔ ہم فورا تاڑ گئے کہ یہ وہی ذاتِ شریف ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا نام بھی یہی بتایا تھا۔ میں نے کہا:” ایسے بہادر کو تو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔” انہوں نے کہا: “دوپہر کا راب لینے گیا ہوا ہے، ابھی تک واپس نہیں آیا۔” ہم لوگوں نے اصلی بات گائوں والوں کو بتائی تو وہ سب کہنے لگے:” آنے دو حرامی کو۔ بڑا جھوٹا ہے۔ گائوں میں تو اس کی بہادری پر اس کو مٹھائی کھلائی گئی۔ ہم لوگ اس کی مرمت کریں گے۔”یہ واقعہ ختم ہوگیا لیکن ایک عرض ہماری سن لیجیے۔آپ ہمارے بہکائے میں نہ آجائیے گا۔ صبح سویرے ہی اٹھیے ورنہ ہماری طرح زندگی بھر پوستی رہیں گے۔