سہیل انجم
اس وقت پوری دنیا پر کروناوائرس کا خوف چھایا ہوا ہے۔ چین سے نکلنے والی یہ وبائی اور موذی بیماری دنیا کے ایک سو سے زائد ملکوں میں پھیل گئی ہے۔ اب تک چار ہزار سے زائد افراد لقمہ ¿ اجل بن چکے ہیں۔ سوا لاکھ افراد اس سے متاثر ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں یہ کوئی خطرناک بیماری نہیں لگتی۔ مریض کو نزلہ زکام ہو جاتا ہے۔ ناک سے پانی آتا ہے۔ گلے میں خراش ہوتی ہے۔ سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ ایک سو چار ڈگری تک بخار آتا ہے۔ لیکن ایسی کوئی خاص تکلیف نہیں ہوتی کہ مریض تڑپنے لگے۔ گویا یہ بیماری بڑی ہی خاموشی کے ساتھ انسان کے جسم میں داخل ہو کر اپنا کام کرتی ہے اور اگر بہتر دیکھ بھال اور احتیاط نہ ہو تو مریض کو قبرستان پہنچا کر دم لیتی ہے۔ ویسے یہ ایسا مرض ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ لیکن ہم اسے لاعلاج بھی نہیں کہہ سکتے۔ اس میں مریض کو الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ نہ تو اس سے کسی کو ملنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے قریب کسی کو آنے دیا جاتا ہے۔ اسپتالوں میں قرنطائن وارڈ بنائے گئے ہیں۔ جسے آئسولیشن وارڈ بھی کہتے ہیں۔ یعنی اس جگہ صرف ڈاکٹر یا اٹینڈنٹ ہی جا سکتے ہیں۔ وہ بھی سرتاپا پوری طرح خود کو ڈھک کر۔ آنکھ تک نظر نہیں آنی چاہیے۔ اس پر بھی ایک خاص قسم کا چشمہ لگا ہوتا ہے۔ مریض سے لوگوں کو اس لیے بچایا جاتا ہے کہ اس کی سانس سے یا اس کے چھو دینے سے ہی دوسرے شخص کو یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ اسی لیے اگر کسی کو نزلہ زکام ہے تب بھی اور نہیں ہے تب بھی عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ یعنی اگر چھینک آئے تو منہ پر رومال یا کوئی کپڑا رکھ لیں یا پھر آستین کو منہ پر کر لیں۔ ناک سے پانی بہے تو ٹیشو پیپر سے صاف کریں اور ایک بار صاف کیا ہوا پیپر پھینک دیں۔ ہاتھ سے ناک اور آنکھ کو بار بار نہ چھوئیں۔ اس کے بر عکس صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں۔ حکومتوں کی جانب سے احتیاطی تدابیر بتائی جا رہی ہیں۔
ہندوستان میں بھی اس کے اب تک 70 سے زائد مریض ہو چکے ہیں اور یہ تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے اسے پھیلنے سے روکنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ باہر سے لوگوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تمام قسم کے سیاحتی ویزے عارضی طور پر رد کر دیے گئے ہیں۔ ائیر انڈیا نے کئی ملکوں کے لیے اپنی پرواز عارضی طور پر بند کر دی ہے۔ حکومت نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بلا ضرورت غیر ملکی دورہ نہ کریں۔ وزیر اعظم نے مرکزی وزرا کو ہدایت دی ہے کہ وہ بھی فی الحال غیر ملکی دورہ نہ کریں۔ پورے ملک میں جانچ کے لیے پندرہ لیب تیار کیے گئے ہیں۔ تمام ائیرپورٹوں پر اب تک دس لاکھ سے زائد افراد کی اسکریننگ کی جا چکی ہے۔ غیر ممالک سے آنے والوں کو وہیں ایئرپورٹ پر الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے اور انھیں ایک مقررہ مقام پر لے جایا جاتا ہے جہاں ان کی اسکریننگ یعنی جانچ کی جاتی ہے۔ سیاحوں کی آمد پر حکومت کی پابندی کی وجہ سے غیر ممالک سے ہندوستان آنے والوں کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ پہلے تمام ایئر پورٹوں پر مجموعی طور پر 72 ہزار مسافر یومیہ ہندوستان آتے تھے۔ مگر اب یہ تعداد گھٹ کر 55 ہزار رہ گئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جس طرح حکومت نے احتیاطی اقدامات کیے ہیں اس کے پیش نظر لوگوں کی آمد میں اور کمی ہوگی۔
جیسا کہ بتایا گیا یہ وبائی مرض چین سے نکلا ہے۔ اس کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے اسے عالمی وبائی مرض قرار دے دیا ہے۔ ادھر ہندوستان میں دہلی اور ہریانہ نے اسے وبائی مرقض قرار دیا ہے۔ ہندوستان میں جو لوگ متاثر ہیں ان میں اکثریت غیر ملکیوں کی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ہندوستانی بھی ہیں جو دوسرے ملکوں سے آئے ہیں۔ جو لوگ ان مریضوں کے رابطے میں آتے ہیں ان کو بھی یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگوں کی تلاش بھی کی جاتی ہے جو ان کے رابطے میں آئے ہوں۔ ہندوستان کے ایسے کئی مریض ہیں جنھوں نے غیر ملکی دورہ تو نہیں کیا لیکن غیر ملکی مریضوں یا ملکی مریضوں کے رابطے میں آئے اور اس بیماری نے انھیں بھی دھر دبوچا۔ چین کے بعد سب سے زیادہ متاثر اٹلی ہے۔ اس کے بعد ایران ہے۔ دونوں ملکوں میں کئی کئی سو افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔ ایران میں ہندوستان کے چھ ہزار سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں جن کی اکثریت قُم میں ہے۔ ان میں گیارہ سو زائرین ہیں جو جموں و کشمیر، لداخ اور مہاراشٹر سے گئے ہوئے تھے۔ حکومت ان تمام لوگوں کو نکالنے کی تگ و دو میں ہے۔ پہلے چین میں جمبو جیٹ بھیج کر وہاں پھنسے ہندوستانیوں کو نکالا گیا اور اب ایران میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔ حکومت کی پہلی ترجیح ان لوگوں کو واپس لانا ہے۔
کچھ لوگ کروناوائرس کو عذاب الٰہی تصور کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہو رہا تھا جس پر قدرت کو جلال آگیا اور اس نے ایک عذاب وہاں کے لوگوں پر مسلط کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین میں مسلمانوں کی زندگی بڑی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ ان کی مساجد بند کر دی گئی تھیں۔ یغور مسلمان سب سے زیادہ ظلم و تشدد کے شکار بنے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق دس لاکھ یغور مسلمانوں کو ڈٹینشن کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ انھیں ان کے مذہب سے برگشتہ کیا جا رہا ہے اور ایک اللہ کی عبادت سے روکا جا رہا ہے۔ لیکن اب جو خبریں آرہی ہیں ان کے مطابق وہاں کی حکومت مسلمانوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ مسجدوں میں نمازیں ادا کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ اس عداب کو واپس لے لے۔ حالانکہ اس کی باضابطہ طور پر کوئی تصدیق تو نہیں ہوئی ہے لیکن بتایا جا رہا ہے کہ وہاں کے وہ حکام جو اللہ کے کلام یعنی قرآن مجید کی بڑی بے حرمتی کیا کرتے تھے اب اس کا احترام کرنے لگے ہیں اور مسلمانوں کو مسجدوں کی جانب راغب ہونے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان خبروں میں کتنی سچائی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین کے حکام دنیاوی علاج میں ناکام ہونے کے بعد خدائی علاج کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو چینی حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ رحم دلانہ سلوک کرے اور یغور مسلمانوں کو کیمپوں سے نکال کر ان کو اپنی پسند کی زندگی جینے کے مواقع دے۔
جہاں تک عذاب الٰہی کی بات ہے تو وہ خاموشی سے ہی آتا ہے۔ آسمان سے کوئی ندا نہیں آتی کہ ہم عذاب مسلط کر رہے ہیں۔ یہ عذاب مختلف صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل بھی دنیا میں بے شمار عذاب آئے ہیں۔ کبھی پانی کا عذاب تو کبھی ہوا کا۔ کبھی آگ کا تو کبھی کسی بیماری کا ۔ اس لیے اگر کروناوائرس بھی عذاب الٰہی ہو تو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی تو اسے عذاب نہیں لکھا جا رہا ہے لیکن مستقبل کا مورخ جب دنیا کی تاریخ لکھے گا تو وہ اسے عذاب ہی لکھے گا۔ لفظ عذاب ایک علامت بھی بن گیا ہے تباہی و بربادی کا۔ ہمارا یہ ایمان بھی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ جب حکمراں ظلم و تشدد کی حد پار کر جاتے ہیں اور انسانوں کے اعمال انسانیت سے گر جاتے ہیں تب عذاب آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب پاپ کا گھڑا بھر جاتا ہے تو وہ پھوٹتا ہے اور جب پھوٹتا ہے تو اس کی زد میں بہت سے لوگ آتے ہیں۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ظلم و تشدد کی انتہا چینی حکمرانوں نے کی ہوگی تو پھر یہ عذاب پوری دنیا پر کیوں آیا ہوا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو نیک اور ایماندار افراد بھی اس کی چپیٹ میں آتے ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں کہ گیہوں کے ساتھ ساتھ گھن بھی پیسا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کہ اگر کسی بحری جہاز کی نچلی سطح میں سوراخ ہو جائے اور پانی بھرنے لگے تو پورا جہاز ہی ڈوب جائے گا۔ صرف نچلی سطح نہیں ڈوبے گی اور اوپر والے بچ جائیں ایسا نہیں ہوگا۔ بلکہ سب کے سب غرق ہو جائیں گے۔ اسی طرح جب عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کے نشانے پر آجاتے ہیں۔ بہر حال یہ وقت دعا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اگر عذاب ہے تب بھی اور کوئی بیماری ہے تب بھی جلد ختم ہو جائے اور انسانوں کو بعافیت زندگی گزارنے کے مواقع ملیں۔
—
.