”کشمیرکے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس بھی کھو بیٹھے ہیں بلکہ غلط بس میں بٹھا دیئے گئے ہیں اس تلخ حقیقت کا اعتراف قائد اعظم نے آل جموں کشمیر مسلم کانفرس کے سربراہ اور آزادحکومت ریاست جموں کشمیر کے نگران اعلٰی چوہدری غلام عباس سے اُن کی مقبوضہ کشمیر سے رہائی کے بعد ١٩٤٨ء میںپاکستان آنے پر ملاقات میں کیا تھا۔ چوہدری غلام عباس کہتے ہیں میں نے قائد اعظم سے پوچھا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں کر ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بحیثیت گورنر جنرل صرف آئینی سربراہ ہوں اور کابینہ کے معالات میں مداخلت میرے بس ک بات نہیں تھی۔قائد اعظم نے کہا تھا یا نہیں مگر ان کی جیب میں واقعی کھوٹے سکے تھے۔ حکومت پاکستان کی کی غفلت ، ناقص منصوبہ بندی اور نادیدہ قوتوں کے کارفرما ہونے کی تصدیق اس واقع سے بھی ہوتی ہے جو قائد اعظم کے سیکریٹری اور ّآزاد کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید نے بیان کیا ہے کہ ١٩٤٩ء میں مقبوضہ کشمیر سے رہائی کے بعد جب وزیراعظم لیاقت علی خان سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے متعدد بار ان سے استفسار کیا کہ قبائلی حملہ کیوں اور کس کے ایماء پر کروایا گیا تھا لیکن لیاقت علی خان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا اور وہ خاموش رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست جموں کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان کی جھولی میں گر ی مگر حکومت پاکستان کی نااہلی، بے حسی، نیم دلانہ پالیسی اور مجرمانہ غفلت نے خود کشمیر کھو دیا جس میں اُس وقت کی کشمیری قیادت بالخصوص مسلم کانفرس کی کچھ رہنماء بھی ذمہ دار ہیں ۔ جس کا خمیازہ ٦٧ سال گذر جانے کے بعد نہ صرف کشمیری عوام بلکہ برصغیر کے لو گ بھی بھگت رہے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کے حصول کے لیے گاندھی، نہرو اور دوسرے بھارتی رہنمائوں کی کوششیں اور برطانوی سامرج کی مدد اپنی جگہ مگر ہماری اپنی غفلت ، فاش غلطیوں اور کوتاہوںکو بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتا ۔ یہی حال مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لیے حکمت عملی اور پالیسیوں کا ہے۔ عالمی ضمیر کی بے حسی اور بھارتی ہٹ دھڑمی اور ظلم ایک طرف لیکن مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کے لیے حکومت پاکستان کی دلچسپی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں یہ معاملہ دیا جاتا رہا جنہیں کشمیر کے حدوداربعہ تک کا علم نہیں تھا اور مولانا فضل الرحمٰن کو سابقہ اور موجودہ حکومت نے کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقر ر کرکے یہ سلسلہ جاری رکھاہے۔ دوسرے جانب آزاکشمیر کی قیادت مظفر آباد کی بے اختیار حکومت حاصل کرنے کے لیے شرمناک کشمکش کا شکار رہی ہے جس کا سلسلہ ١٩٤٨ء سے چوہدری غلام عباس اور صدر آزادکشمیر سرادر ابراھیم کے مابین شروع ہوا۔ چوہدری غلام عباس کو آزادکشمیر کا نگران اعلٰی مقررکردینے سے بھی معاملہ طے نہ ہوا اور پھر وزرات امور کشمیر کے جوائنٹ سیکریٹری کی خوشامند کی جانے لگے تاکہ وہ اقتدار کا ہما سر پر رکھ سکے۔
تقسیم ہند اور کشمیر کی تاریخ کے اہم واقعات میں ٢٧ جولائی ١٩٤٦ء کو مسلم کانفرس کا چوہدری غلام عباس کی سربراہی میں اجلاس بھی ہے جس میں قرارداد آزادکشمیر پاس ہوئی اور مہاراجہ کو اپنے تعاون کا یقین دلایا گیا۔ ٣ جون ١٩٤٧ء کو تقسم ہند کے منصوبہ کا اعلان ہوا۔ اُس وقت قائد اعظم نے مسلم کانفرس کی قیادت کوبھی یہ ہدایت کی کہ اب احتجاجی اور محاذ آارئی کی سیاست کا وقت نہیں اور ہر قسم کی ایجی ٹیشن سے منع کیاتاکہ پر امن انداز میں تقسیم کے موقع پر اپنا خطہ حاصل کیا جاسکے لیکن قائداعظم کی اس نصیحت کو نظر انداز کرتے ہوئے مسلم کانفرس کی ناتجربہ کار اور کوہ تاہ اندیش قیادت نے مہاراجہ کے ساتھ غیر ضروری اور بے محل محاذ آرائی شروع کردی جس پر مسلم کانفرس کے صدر چوہدری غلام عباس اور دوسرے کچھ رہنماء گرفتار کرلیے گئے۔ مسلم کانفرس ضلع جموں کے اہم رہنماء اور آزادکشمیر کے سٹیٹ کونسلر قاضی خورشید عالم راقم کو ان واقعات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بہت کبیدہ خاطر ہوتے تھے کہ یہ بے وقت اور بچگانہ قدم تھا۔ ١٨ جولائی ١٩٤٧ء کو سری نگر میں مسلم کانفرس کے قائمقام صدر چوہدری حمید اللہ کی صدارت میں ریاست جموں کشمیر کی مکمل آزادی قرار داد پاس ہوئی ۔ خلیفہ عبدالمنان کے مطابق چوہدری عبداللہ خان بھلی (میری اہلیہ کے جد امجد اور بعد میں آزادکشمیر کے پہلے وزیر مال) نے جیل سے چوہدری غلام عباس کا لکھا ہوا خط پڑھ کر سُنایا کہ کنونشن کے شرکاء ریاست کی مکمل آازدی کی قرارداد پاس کریں۔ یہ مشورہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ٢١اپریل ١٩٤٧ء کے اجلاس اور قائد اعظم کی کشمیر پالیسی جو کہ ١٨ جون اور ١١ جولائی ١٩٤٧ء کے پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والے بیانات کے عین مطابق تھی۔ بحر حال کچھ روایات کے مطابق ١٩ جولائی کو مسلم کانفرس کے کنونشن نے اپنی قرارداد جسے الحاق پاکستان کہا جاتا ہے اس کی شق ٤ کے تحت ریاست جموں کشمیر کے دفاع، مواصلات اور امور خارجہ کو پاکستان کے حوالے کیا جائے اور باقی معاملات میں ریاست کے پاس رہیں۔ مسلم کانفرس کے کنونشن نے مہاراجہ کشمیر سے کہا کہ اگر اُس نے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا تو وہ مہاراجہ سے مکمل تعاون کریں گے۔ تین ہفتے بعد ١٢ اگست ١٩٤٧ء کو مہاراجہ کشمیر کے حکم پر ریاست کے وزیر اعظم نے حکومت پاکستان اور بھارت سے الحاق stand still agreementکرنے کی درخواست کی جسے بھارت نے رد کردیا جبکہ پاکستان نے قبول کرلیا اور پندرہ اگست کو قائد اعظم نے اس پر دستخط کردیئے اس طرح مسلم کانفرس کی قراد داد کے مطابق دفاع، مواصلات اور امورخارجہ حکومت پاکستان کے پاس چلے گئے۔ قیام پاکستان کے موقع پر ١٤ اگست کو تمام ریلوے اسٹیشنوں، ڈاکخانوں اور دوسرے وفاقی اداروں پر پہلی اور آخری بار پاکستانی پرچم سرکاری طور پر لہرایا گیا اور خود مہاراجہ کشمیر نے اُسے سلامی دی اس طرح ریاست جموں کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح پاکستان کی گود میں آگرا۔اکتوبر کے اوائل میں حکومت پاکستان نے وزارت خارجہ کے سیکریٹری میجر اے ایس پی شاہ کو معائدہ کے تحت ضروری معاملات طے کرنے ریاست کے دارلحکومت سر نگر بھیجا جو حکومت پاکستان کا آخری رابطہ تھا۔
اس معائدہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خوشی کے شادیانے بجائے جاتے اور اس متعلق کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی مگر شومئی قسمت ایسا نہ ہوسکا اور ابھی اس معائدہ پر قائداعظم کے دستخطوں کی سیاہی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ایجی ٹیشن اور محاذ آارئی کا سلسلہ شروع کردیا گیا جو مسلح کاروایوں میں بدل گیا اور ٢٣ اگست کو نیلہ بٹ کے مقام پر ریاستی سیکورٹی فورس پر فائرنگ کی گئی جس سے کشمیر کا سینہ ایسا چھلنی ہونا شروع ہوا کہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ محاذ آرائی پھیلتی گئی اور اس نے پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا اور گلگت بلتستان تک سلسلہ جا پہنچا۔پھر کشمیر پر ٢٢ اکتوبر کو قبائلی حملہ کروا کر جموں کشمیر کے جنت نظیر خطہ کو آگ اور خون کے نہ ختم ہونے والے ایسے کھیل میں دھکیل دیا گیا جس سے ریاست جموں کشمیر چار ٹکڑوں اور خود کشمیری پانچ حصوں میں بٹ گئے۔ان حالات نے مہاراجہ کو مجبور کردیا کہ وہ بھارت کی طرف چلاجائے اور وہی ہوا ٢٦ اکتوبر کو ریاست کو بھارت سے جبری الحاق ہوا۔اگر کشمیر پر قبائلی حملہ نہ کرویا جاتا، پونچھ میں شورش نہ کی جاتی اور الحاق کے بعد تعلقات کو مستعدی سے استوار کیا جاتا تو آج کشمیر کی تاریخ مختلف ہوتی اور ٢١٧٠٠٠ مربع کلومیٹر کی ریاست متحد اور پاکستان کے ساتھ ہوتی اور مسئلہ کشمیر پیدا ہی نہ ہوتا۔
تاریخگہری نظر رکھنے والوں کوان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ سیالکوٹ سے جموں جانے والی ریل کو کس کے حکم سے بند کیا گیا۔ریاست کو خوارک اور دوسری ضروری اشیاء کی فراہمی کس نے بند کروائی۔ حکومت پاکستان نے Stand still Agreementکی خلاف ورزی کیوں کی۔ شیخ عبداللہ کے جی ایم صادق کی سربراہی میں اکتوبر ١٩٤٧ء میںبھیجے ہوئے وفد کو لاہور میں قائد اعظم سے کیوںملنے نہیں دیا گیابلکہ اس وفد میں شامل ایک رکن کامریڈ شفیع کے دانت توڑدیئے گئے۔آزادکشمیر کے صدر سرادر ابراھیم کو کی قائد اعظم سے ملاقات کیوں نہ ہونے دی گئی۔ آزادکشمیر کے نگران اعلٰی چوہدری غلام عباس کو جناح سے آخری بار کس نے نہ ملنے دیا۔ قبائلی حملہ کس کے حکم سے ہوا اور اگر یہ ناگزیر بھی تھا تو اسے سیالکوٹ اور شکرگڑھ کی طرف سے کٹھوعہ کی جانب کیوں نہ کیا گیا جہاں سے صرف ایک سڑک ریاست کو بھارت سے ملاتی ہے اور بھارت کا راستہ بند ہوجاتا۔ قائد اعظم کے ارشادات کے برعکس کیوں کشمیر پالیسی اختیار کی گئی اور اقوام متحدہ کی پہلی قرادراد جو کہ ١٥ اگست ١٩٤٨ء میں پاس ہوئی تھی اس میں قائد اعظم کی وفات کے بعد کیوں ترمیم کروا کے ٥ جنوری ١٩٤٩ء کی قراداد دے اسے دو طرفہ تنازعہ بنا دیا گیا۔بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیش کش کیوں کی گئی اور کشمیر کی آزادی کے کئی مواقع سے کیوں فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔آپریشن جبرالٹر کی جیسا ناقص منصوبہ کیوں اختیار کیا گیا۔ آزاد کشمیر کی کابینہ سے وزیر دفاع کا عہدہ اور فوج AKRFکو کیوں ختم کیا گیا اور سیز فائر کو کنٹرول لائن میں کیوں بدلا گیا۔
رہبران قوم یوں تو رہبری کرتے رہے
پھر بھی ساری قوم یونہی ٹھوکریں کھاتی رہی