ارم ہاشمی
آرکسٹرا نے آخری سانس کھینچی،ساز کراہے اور ڈرم کا دل گونج اُٹھا۔رقاصہ کی کمر نے ہچکولے لئے اور نڈھال ہو کرمرمریں فرش پر پھیل گئی،ہال تالیوں سے گونج رہا تھاکیبرے ڈانسر جب الوداعی سلام کے لئے جھکی تو مارے حیرت کے میں اپنی نشست سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
یہ ہوٹل شہر کے وسط میں تھا۔
یہ اِس سے پہلے کسی انگریز پلانٹر کا بنگلہ تھا۔جب شہر کی آبادی بڑھنے لگی اور کارخانے کھلنے لگے اور صنعتی زندگی شہر میں قدم جمانے لگی تو بنگلے کے صاحبِ نظر مالک نے اس بنگلے کو عمدہ گیارہ کمروں والے ہوٹل میں تبدیل کر دیا۔یہ اِس شہر کا پہلا ہوٹل تھا اِس لئے بہت مقبول تھا۔اِس علاقے میں زیادہ تر غریب اور متوسط لوگ رہائش پذیر تھے اور اپنی دکانیں چلاتے تھے۔جبکہ چند لوگ پیسے والے تھے جو اِس علاقے کے امیر تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔اور اپنا وقت یہاں بِتاتے تھے یہ محفل رات رات بھر جمی رہتی۔آہستہ آہستہ یہ ہوٹل اپنی شہرت کھونے لگا۔حتیٰ کہ شریف لوگ یہاں آنے سے گھبرانے لگے۔
شہر کے اس معروف ہوٹل میں پچھلے کئی ہفتوں سے ثقافتی تقریبات جاری تھیں۔کلچر کے نام پر ایسٹرن اور ویسٹرن بیہودہ رقص پیش کئے جا رہے تھے۔اُس روزہال کچھا لھچ بھرا ہوا تھا شاید ہی کوئی نشست خالی ہو۔اسٹیج کا پردہ گرا ہوا تھا اور روشنی جاگ رہی تھی۔لوگ چہ مے گوئیاں کر رہے تھے۔کوئی تیز آواز میں بول رہا تھا تو کوئی سرگوشی کے انداز میں۔مدھم روشنی کی وجہ سے کسی کا چہرہ صاف نہیں دِکھ رہاتھا۔کلچرل فیسٹیول عوام کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا تھا۔جب میں نے کئی دوستوں سے اس کی تعریف سنی تو ایک دن ادھر نکل پڑی۔ہوٹل کے باہر خاصی گہما گہمی تھی۔ ہر طرح کے لوگ وہاں موجود تھے۔کچھ لمبے لمبے ٹیکا دھاری، کچھ گیروا کپڑے زیب تن کئے ہوئے، کچھ ملا ٹائپ لوگ کچھ عام لباس اور عام حلئے میں ۔بھیڑ کے باوجود مجھے ٹکٹ ملنے میں کوئی دُشواری نہیں ہوئی کیونکہ میری شہرت ایک معروف رائیٹر کی ہے۔
دھیرے دھیرے ہال کی روشنی گُل ہونے لگی ۔اور فضا میں ایک آواز ابھر ی۔
’’ڈانس فیسٹیول کے آغاز سے قبل چند باتیں بتانا ضروری ہیں۔رقص ہماری ثقافت کا حصہ ہے مگر اس کے اظہار کے انداز مختلف ہیں۔موئن جو دڑو میں پانچ ہزار سال قبل بھی رقص کے نشانات پائے جاتے ہیں۔۔۔۔میں دھماکے کے بعد صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی مگر اس شب ہم نے کیبرے ڈانس کا آغاز کر دیا تاکہ دنیا بھر میں یہ پیغام واضح طور پر پہنچ جائے کہ پاکستان زندہ دل لوگوں کا ملک ہے۔یہ ایک پُر امن ملک ہے جسے جان بوجھ کر بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔لچھ لوگ اس سے اتفاق کریں گے اور کچھ کو اعتراض بھی ہو سکتا ہے۔اس لئے رقص کے دوران خاموشی اختیار کریں‘‘۔
اسٹیج کا پردہ دھیرے دھیرے سرکتا ہے۔آہستہ آہستہ روشنی ماند پڑ تی جاتی ہے ۔ایک عورت کا سایہ لہراتا ہے۔آرکسٹرا کی دُھن بج اٹھتی ہے اور جب کیبرے ڈانسر کی کمر ہچکولے لیتے نڈھال ہو کرمرمریں فرش پر پھیل جاتی ہے توہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔اورڈانسر الوداعی سلام کے لئے جھک کر چہرہ اٹھاتی ہے تو مارے حیرت کے میں اپنی نشست سے اُٹھ کھڑی ہوتی ہوں۔
پردہ گر جاتا ہے ۔
’’آج کا شو یہیں اختتام پذیر ہوا‘‘ساؤنڈ ٹریک پر پھر وہی آواز اُبھرتی ہے۔میں آوازوں سے بے خبر ڈانسر کی تلاش کو نکلتی ہوں۔میں اسے برسوں پہلے جانتی تھی۔پرانے منظر جاگ اٹھے تھے۔
وہ کوٹھے سے اُتررہی تھی اور میں چڑھ رہی تھی۔’’اے ہے یہ میں کہاں آگئی‘‘۔خاندان والے کیا سوچیں گے؟میں ایک معروف لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معلمہ بھی ہوں اوریہاں سے میرا اسکول نزدیک ہی تھا۔اس لئے میں نے یہاں کرائے پر گھر لے کر رہنے کو ترجیح دی لیکن اب اپنے سامنے ایک کیبرے ڈانسر کو پا کر سٹپٹا گئی۔یا اللہ ! یہ میں کہاں آگئی۔ اُوپر سے یہ عمارت بالکل شریفوں کی معلوم ہوتی تھی۔یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ میرا کسی طوائف سے ٹاکرا ہوا۔ اس کا بدن مہک رہا تھا۔کون شریف اس محلے میں رہ سکتا ہے۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ جلد یہ فلیٹ بدل دوں گی۔اگلا روز اِتوار کا تھا۔ چھٹی والے دن میں بستر پر ہی ناشتہ کرنے کی عادی ہوں۔اچانک دروازہ کھلا اور وہ ایڑیاں ٹھمکاتی چلی آئی۔ اِس سے پہلے کہ میں سنبھلتی وہ نہایت بے تکلفی سے اُچک کر بیڈ پر آبیٹھی۔ایک طوائف کو اتنا قریب پا کر میں پسینہ پسینہ ہو گئی۔’’تم نے ناشتہ کر لیا؟ یہ دیکھو میں تمہارے لئے سویاں لائی ہوں‘‘وہ انتہائی چست کپڑوں میں ملبوس تھی۔’’میں صبح کے وقت مٹھاس نہیں کھاتی‘‘میں نے غرور سے گرہستن بننے کی کوشش کی۔’’بھئی تمھیں ہماری قسم تھوڑی سی چکھ لو‘‘۔اِنکار کے باوجود جب وہ مصر رہی تو میں نے دو چمچ چکھ لئے۔ یا خدا ! میرا جی چاہا کہ اُنگلی حلق میں ڈال کر قے کر دوں۔ میں ایک طوائف کی حرام کمائی سے کھا رہی تھی۔
جب سے اس کو پتہ چلا تھا کہ میں ایک رائیٹر ہوں۔ اور ملک کے معروف جرائد میں میری تخلیقات چھپتی ہیں تو وہ بہانے بہانے سے میرے ہاں آن دھمکتی۔ ایک روز میں اوپندر ناتھ کے ناول کا مطالعہ کر رہی تھی کہ وہ اَچانک آدھمکی۔’’دیکھو نا ! یہ کیا شکل نکل آئی ہے‘‘
۔’’بھئی آج تو میں تمھیں ضرور کلب لے کر جاؤں گی،تم میرا رقص دیکھنا‘‘وہ اٹھلائی۔’’میرے بہت کام پڑے ہیں ‘‘میں نے رکھائی سے انکار کر دیا۔وہ بڑ بڑاتی ہوئی چلی گئی۔صبح ہوئی تو میں اسکول کو جانے کے لئے نکلی۔ وہ پھل والے سے کھڑی اُلجھ رہی تھی مجھے دیکھا تو غیروں کی طرح منہ پھیر لیا۔فخر سے میرا سر اونچا ہو گیا۔ آخر کو اسے معلوم ہو ہی گیا کہ میں شریف ہوں اور و ہ بازار کی جنس۔میرا جی چاہاکہ میں اپنی برتری اور اس کی کمتری کا اعلان کر دوں۔ سب کو بتاؤ ں کہ میں ایک مقدس ادیبہ ہوں اور یہ رنڈی قحبہ۔دیکھ لینا حشر کے روز میں جنت میں جاؤں گی اور یہ دوزخ کا ایندھن بنے گی۔
ایک روز مارے تجسس کے میں اُس کے گھر چلی گئی۔دیکھوں تو سہی اندر سے ان لوگوں کے گھرکیسے ہوتے ہیں۔ شو کیس کی طرح سجا ہوا
ڈرائنگ روم روشنیوں سے جھلملا رہا تھا۔یہ قدِ آدم الماریاں جن میں ہزارہا کتابیں بڑے سلیقے سے رکھی تھیں۔ایک کیبرے ڈانسر کے گھر اس قدر کتابیں۔۔۔ ایک دم گھڑوں احساس کمتری مجھ پر ٹوٹ پڑا۔اگلے ہی لمحے مجھے اس پر رحم آنے لگا۔بد نصیب پڑوسن!!! میں نے دکھ سے آہ بھری !! نہ جانے کیوں اپنا جوہرِ عصمت لٹانے پر مجبور ہے۔
اسٹیج پر اندھیرا چھا چکا تھا۔ ہال میں ہلکی ہلکی آوازیں اُ
بھر رہی تھیں جیسے مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں۔ میں اسے تلاش کرتے کرتے بال روم کے ساتھ بنے ایک کمرے میں چلی گئی۔ وہ وہاں اپنے سامان درست کر رہی تھی۔’’تم یہاں کیسے؟‘‘ میں اس کے پاس جا کے مخاطب ہوئی۔ مجھے اپنے قریب پا کر وہ ایک لمحے کے لئے ٹھٹکی پھر اس نے لمبا سانس لیا’’تم نے وہاں ایک ماہ بھی نہیں گزارہ تھا۔ اس نے مجھے یاد کرانے کی کوشش کی ۔تم جانتی ہو نامجھے دانشوروں سے ملنے کا بہت شوق تھا۔تمہارے چلے جانے کے بعداسی شوق کی خاطرمیں نے ایک لائبریری میں دو سال ملازمت بھی کی۔لیکن وہاں دو سالوں میں کسی دانشور سے ملاقات نہ ہوئی اور جب سے اس گھٹیا ہوٹل میں ملازمت کی ہے شہر کے ہر بڑے دانشور سے مل چکی ہوں‘‘۔