عابدہ رحمانی
بچپن میں اسمٰعیل میرٹھی کی نظم پڑھتے تھے – رب کا شکر ادا کر بھائی ، جس نے ہماری گائے بنائی-
آج کل پاکستان میں بھارت سے برآمد شدہ اشیاء کے خلاف ایک مہم چلی ہوئی ہے خاص طور پر اشیاۓ خورد و نوش اور کاسمیٹکس وغیرہ، اسکے تصویری ثبوت اور حقائق مہیا کئے گئے ہیں کہ ا ن اشیاء میں گائے کے پیشاب اور گوبر کی آمیزش ہے- اس حقیقت سے کسی کو انکار نھیں کہ گائے کا گوبر اور پیشاب ہندو دھرم میں پاک پوتر سمجھا جاتاہے-اسے جانے دیجئے چند روز پہلے بی بی سی نے ایک تفصیلی خبر نشر کی تھی اور اسکی ویڈیو بھی دکھائی کہ برطانیہ کے اشیاء خورد و نوش کی دکانوں میں گائے کا پیشاب باقاعدہ لیبل کے ساتھ بوتلوں میں برائے فروخت ہے ۔۔ تصویر میں اسکے ساتھ ایک جانب نان رکھے ہوئے ہیں ۔۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ گائے کا پیشاب اتنی آسانی سے برطانیہ میں کیسے میسر ہوا۔۔؟
میں خود کبھی بھارت یاترا پر نہیں گئی اور ان مناطر کی چشم دید گواہ نہیں ہوں-لیکن بہت کچھ سننے اور پڑھنے میں آتا ہے- بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لئیے بھی گائے کا گوشت ایک نعمت غیر مترقبہ ہے- بوڑھی گایوں کوبیو پاری پاکستان کے بیوپاریوں کے ہاتھ سستے داموں بیچ دیتے ہیں اور یوں لوگوں کو کافی بیکار گوشت ملتا ہے – گائے کے ذبح پر بھارت میں کئی ہندو مسلم فسادات ہو چکے ہیں- چند مہینے پیشتر دہلی کے قریب کے گاؤں میں ایک مسلمان کے گھر پر حملہ کر کے صرف اسلئے قتل کر دیا گیا کہ اسپر فرج میں گائے کا گوشت رکھنے کا شبہ تھا ۔۔اسلئے لوگوں نے اہنی تسلی کے لئے یہ کہنا شروع کیا ،” ہم بڑا گوشت نہیں کھاتے” جبکہ مغرب میں بڑا گوشت یعنی بیف انتیہائی پسندیدہ اور مہنگا ہے—-
آپ لوگوں نے جے لینو کا ٹو نائیٹ شو دیکھا ہوگا بسا اوقات دلچسپ مذاق ہوتے تھے ۔۔کہنے لگے،” انڈیا سے ہائی ٹیک اندسٹری اور اعلےٰ تعلیم کے لیے جو ھندو بچے آتے ہیں انکو متبرک بنانے کے لئے گائے کے پیشاب سے نہلا کر امریکہ بھیجا جاتا ہے،” اور اسکے ساتھ اسنے کافی کراہئت دکھائی- “they are actually drenched in cow’s urine.” جبکہ یہی بچے یہاں کی ہایئ ٹیک اور دوسرے شعبوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیئت سے ہیں اور رفتہ رفتہ یہآں کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں-مشہوربھارتی وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کا پسندیدہ مشروب خود انکا اپناپیشاب تھا -وہ اسے ایک ٹانک اور آب حیات کا درجہ دیتے تھے، اسکے طبی اور نفسیاتی فوائد پر اکثر بحث کرتے اور اپنے اس فعل پر کافی فخر کرتے تھے، بلکہ اپنی لمبی اور صحتمند زندگی کا راز اسی کو بتاتے تھے- اکثر ہندو مٹھائی والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ دھی کے کونڈوں اور مٹھائی کی ہانڈیوں کو تبرکا گوبر لگاتے ہیں- ڈھا کے میں ایک مشہور رس ملائی والا کالا چاند تھا اسکے بارے میں یہی مشہور تھا کہ تمام ہانڈیوں کو پہلے گوبر لگا لیا جاتاہے- یہ قصہ بھی اسی سے متعلق ہے-
ہمارے پیچھے کی طرف نئے مکانوں میں ایک خاندان آیا تھا -کھڑکیوں سے تاک جھانک ہوتی تھی-اگلے روز ہی مٹھائی کا ڈبہ لئیے ہوۓ کانتا بائی آئیں -احمد آباد گجرات سے تعلق تھا- وہاں کے ہندو مسلم فساد کی بازگشت تازہ تازہ تھی-اسکے باوجود مجہے انکی گرمجوشی اور پہل کرنا اچھا لگا-اور پھر تو یہ روز کا معمول ہوگیا کہ وہ بلا تکلف جب جی چاھتا ، دروازہ کھٹکھٹا کر آجاتی تھیں- جو کچھ انھوں نے پکایا ہوتا اس میں ہمارا حصہ ضرور ہوتا-زیادہ تر دالیں لوبیا، سبزیاں ،کھانوں میں ہلکی سی مٹھاس رہتی،بتایا کہ وہ لوگ کھانے میں گڑ ضرور ڈالتے ہیں- ہم نے واپس انکو جب بھی پکا کر بھیجا تو منع کر دیتی تھیں، ” ارے میری بہو نہیں کھاتی کہ انھی برتنوں میں پکایا ہوگا جس میں گوشت پکاتے ہیں- لیکن ھمارے منع کرنے کے باوجود وہ ہمارا حصہ ضرور کرتیں- بتاتی تھیں بیٹا بہو یہاں آکر دھرم میں اور چست ہوگئے- ڈاؤن ٹاؤن میں ایک بڑا مندر بن رہاتھا ہر ویک اینڈ پر جا کر وہاں کام کرتے تھے ، 500 ڈالر ماہوار مندر کو دیتے بیٹے نے قسم کھائی تھی کہ جب تک مندر تیار نہیں ہوتا وہ میٹھا نہیں کھائے گا – مجہے تو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئ کہ وہ لوگ ہندی فلموں کے بھی سخت خلاف تھے ، گانے بھی سننا پسند نہ کرتے، بتاتیں کہ بس بھجن ، کیرتھن سن لیتے ہیں – بیٹا کیمیکل انجینئر تھا،” پائی جوڑ جوڑ کر پڑھایا ہے”بہو کینیڈیئن شہری تھی ، پہلے بیٹا آیا ، بعد میں ماں باپ اور دو بھائیوں کو سپانسر کیا-ھلاکوخان قسم کی بہو تھی کینیڈئن شہریئت نے اسکا کچھ خاص نھیں بگاڑا تھا- اٹھتے بیٹھتے اپنا احسان جتلاتی تھی- خود کسی فیکٹری میں ملازم تھی کانتا با ئی گھر کا سب کام کرتی، کھانا پکانا،گھر کی صفائی ، بچوں کی دیکھ بھال- ابھی ان مکانوں میں جنگلے نہیں لگے تھے- نئی نئی آئی تھیں یہاں کے طور طریقوں سے واقف نہیں تھیں ، بہار کا موسم آیا تو ہمارے گلابوں میں بھر کر پھول آئے ،اکثر صبح صبح آدھمکتیں دو گلاب کے پھول دیدٰیں بھگوان کے چرن چڑھانے ہیں ! سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ عمر میں مجھ سے 6،8 سال بڑی تھیں ، لیکن میرے بچوں کی دیکھا دیکھی امی پکارنے لگیں ،مجھے انکی سادگی اور محبت بہت بھائی- ایک روز آئیں آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے ، بیحد دکھی لہجے میں کہنے لگیں،’ بہو نے بہت تنگ کیا ہوا ہے، انڈیا بیٹی سے بات کرنی ہے ، فون میں کچھ گڑ بڑ کر گئی ہے- میں کارڈ لائی ہوں اگرآپ ملادینگی–میں نے ملایا کافی دیر اپنی زبان میں باتیں کرتی رہیں – میں اوپر تھی جب اندازہ ہوا کہ انکی بات ختم ہوگئی تو نیچے آنے لگی – سیڑھیوں کے پاس کھڑی تھیں
جھٹ سے میرے پاؤں پکڑ کر اوپر سر رکھ لیا-” ارے کانتا بائی خداکے لئے یہ آپ کیا کر رھی ہیں؟ “آج تو آپ میرے بھگوان ہو” وہ فرط جذبات سے کیا کیا کہتی رہیں – میں استغفار پڑھتی رہی اور انکو گلے لگایا – دیکھیے آپ مجھے گنہگار کر رھی ہیں آپ میری بہن کی طرح ہیں- میں نے کافی کوشش کی کہ انکو اپنے سنٹر لے جاکر مختلف پروگراموں میں شامل کر دوں ہما رے اس ملٹی کلچرل کونسل میں عمر رسیدہ خواتین کے لیے کافی دلچسپ پروگرام تھے ، اسکے علاوہ ESL ( english as a second language) کی کلاسز ہوتی تھیں اگر آپ لوگوں نے انگریزی کا مزاحیہ پروگرام ( Mind your language) دیکھا ہو تو بالکل وہی حال ہوتا ہے، اسکے علاوہ ہم نئے آنے والوں کو انکےشہری حقوق اور فرائض کے بارے میں بہی آگاہی دیتے،آنے جانے کے لئے بس کے فری ٹکٹ میسر تھے – لیکن انکو سیوا کرم سے فرصت کہاں تھی؟ ھندی اور گجراتی جانتی تھیں– لیکن انگریزی سے نابلد تھیں–
ہمارے ہاں دعوت تھی کھانا شروع ہونے ہی والا تھا کہ کانتا بائی لوبئے کا پیالہ لے آئیں میں نے وہ بھی میز پر لگادیا- فرزانہ کہنے لگیں آپ لوگ انکا کھانا کھا لیتے ہیں ؟ ہاں کیوں؟ ” آپ نہیں جانتیں یہ تو کھانے میں گائے کا پیشاب ڈالتے ہیں” اتنا کافی تھا
لوبیا تو کوڑے کی نذر ہوا لیکن یقین پھر بھی نہیں آیا -اگلے روز کانتا بائی کو ایک لمبی چھل قدمی پر لے جانے کی پیش کش کی ، شکر ہے وہ تیار ہو گئیں- ” کانتا بائی آپ لوگ گاۓ کا گوشت نہیں کھاتے ، کیا اسکو ناپاک سمجھتے ہیں ؟ ” ” گائے تو ماتا ہے ہمیں دودھ دیتی ہے ہمیں پالتی ہے ،ہم اسکی سیوا کرتے ہیں اسکا بہت خیال کرتے ہیں ، اسکو کاٹنا تو بہت بڑا پاپ ہے”- ” اور اسکا گوبر اور پیشاب وغیرہ اسکو آپ کیا کرتے ہیں؟ ” اسکو ہم پوتر سمجھتے ہیں ، پیشاب گھر میں چھڑک دیتے ہیں اور گوبر سے گھن نہین کرتے ، پھلے تو جب کچے فرش ہوتے تھے تو گوبر سے لیپ لیتے تھے-کانتا بائی صاف گوئی کے موڈ میں تھیں–اور اب کبھی دیوار پر تھوڑا سا لگالیتے ہیں یا گھر کے باہر کی طرف لگاتے ہیں”- “اورکھانے میں بھی ڈالتے ہیں؟” وہ کچھ خاموش ہویئں ” نہیں کھانے میں نہیں ڈالتے” نمعلوم کیوں مجھے لگا جیسے وہ اب غلط بیانی کر رہی ہیں-” تو یہاں پر آپ لوگ کیا کرتے ہیں” ” ارے یہاں کہاں یہ سب ملے گا ” لیکن فرزانہ نے بتایا کہ یہ لوگ بوتل میں لے آتے ہیں اور تبرکا ایک قطرہ،دو ڈالتے ہیں—اسکے بعد کانتا بائی سے دوستی تو قائیم رہی لیکن انکا کھانا حلق سے نہین اترا-
لیکن ہیوسٹن میں رہنے والی ایک دوست نے بتایا کہ وہ ایک فارم ہاؤس پر دودھ لینے گئے ،فارم والے نے انکو انڈین سمجھ کر پوچھا ،”کہ کیا گائے کا پیشاب بھی چاہئے ۔انکے استفسار پر انہوں نے کہا کہ کئی انڈین انسے گائے کا پیشاب لے جاتے ہیں جو وہ کنستر میں بھر کر رکھتے ہیں۔۔
Sent from my iPad
off toba abda api ,,,,,kya khani hai k is par such ka goman hota hai…..likhti rhain