گمشدہ مکان

تحریر شازیہ عندلیب
ڈیوڈ رسل پچھلے آدھے گھنٹے سے اپنا مکان تلاش کر رہا تھا مگر مکان تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا۔وہ پچھلے چھ ماہ سے یہاں رہائش پذیر تھا۔وہ اپنی برینڈ نیو نیلی بی ایم ڈبلیو گاڑی میں اس لین کے چار چکر لگا چکا تھا۔صبح کے دس بج رہے تھے۔وہ ایک ہفتے کی ڈیوٹی کے بعد واپس آ رہا تھا۔یہ ایک ہفتہ اس نے معدنی تیل کے پلیٹ فارم پر سمندر کی تہہ میں گزارا تھا۔گویہ ا سکی پسندیدہ ملازمت تھی اسے سمندر میں رہنا اس میں کشتی رانی کرنا اور پانی کی سطح پر سرفنگ کرنا بہت پسند تھا۔لیکن پسندیدہ سے پسندیدہ کام بھی انسان کتنی دیر تک کر سکتاہے سمندر کی گہرائی میں کئی سو فٹ تک نیچے آبدوزوں اور شیشے کے گھروں میں رہنا دلچسپ ضرور تھا لیکن تھکا دینے والا بھی تھا۔اسے سمندر میں رہنا اتنا پسند تھا کہ وہ اکثر اپنی رہائش کسی بحری جہاز میں رکھنے کا خواب دیکھا اکرتا تھا لیکن ابھی وہ یہ خواہش پوری نہیں کر سکتا تھا۔اس لیے اس نے ساحل سمندر پر بنا یہ خوبصورت ولاء چار ملین کراؤن کا خریدا تھا۔اس کے ٹیرس سے سمندر کا نظارہ بہت خوبصورت نظرآتا تھا۔وہ اکثراپنے دوستوں کے ساتھ یہاں شام کو کافی پیتا اور سب نظاروں سے لطف اندوز ہوتے۔
ڈیوڈ رسل ایک سال پہلے لندن سے پٹرولیم کے مضمون میں انجینئیرنگ کی ڈگری لے کر آیا تھا۔اس کے والدین برگن میں رہتے تھے۔اسے اوسلو کی ایک آئل کمپنی میں بہت اچھی ملازمت مل گئی تھی۔ڈیوڈ درمیانے قد اور براؤن بالوں والا ایک محنتی اور یماندار نارویجن تھا۔آج اس کے ساتھ جو کچھ ہونے جا رہا تھا وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتا تھا۔اس نے ایسی بات نہ کبھی سنی نہ دیکی ۔آپ ہی بتائیں کیا کبھی کسی کا مکان بھی گم سکتا ہے ۔مگر اب تو یہ ہو چکا تھا۔ایک انوکھا واقعہ۔۔۔ یا شائید ایک ناقابل فہم واردات ۔۔۔

beneath the sea...

آئل کمپنی آجکل ایک نئی قسم کے کمپریسر سمندر کی تہہ میں نصب کر رہی تھی۔ان کی مدد سے ذیادہ پٹرولیم سپلائی کیا جا سکتا تھا۔یہ ایک تھکا دینے والا کام تھا۔گو کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر مہیب اور دیو ہیکل سمندری جانوروں کا نظارہ ا سکے لیے بہت ہی دلفریب تھا ۔بڑی بڑی شارک بلیو وہیل اوردریائی گھوڑے۔۔۔ اور پھر ان کے درمیان جیلی فش اور اسٹار فش جیسی دلفریب روشنیاں بکھیرتی مچھلیاں ایک عجیب اورانوکھا نظارہ پیش کرتیں۔وہ وہ تیراکی کے لباس میں ان کے بیچ میں تیرتا ہوا خود کو ایک خوبصورت دریائی گھوڑا محسوس کرتا لیکن کام اور ڈیوٹی کی ادائیگی سمندر کی تہہ میں تیل سپلائی کی تنصیبات کرنے سے لے کر معدنی تیل کی تلاش تک کے سارے کام اپنی نگرانی میں کروانا اسے ان نظاروں سے پوری طرح لطف اندوز نہ ہونے دیتا۔وہ چند ماہ میں اپنی ہسپانوی کلاس فیلو سے شادی کرنے والا تھا۔ سنہری آنکھوں اور دراز بالوں والی ریٹا بھی اس کی طرح سمندری جانوروں کی شیدائی تھی۔دونوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ وہ اپنا ہنی مون سمندر کی تہہ میں منائیں گے۔اور جلد ہی اپنا گھر سمندر کی سطح پر ایک بحری جہاز میں بنائیں گے۔مگر ابھی تو اسے ساحل سمندر پہ بنے گھر میں آرام کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔کام پر ٹھیک طرح سے نیند بھی نہ آتی تھی۔اس کا جسم تھکن سے چور تھا اورنیلی آنکھوں میں رت جگوں کی وجہ سے سرخ ڈورے لہرا رہے تھے۔وہ جلد از جلد اپنے خوبصورت اور آرام دہ گھر میں جا کر سو جانا چاہتا تھا۔مگر اسے کیا خبر تھی کہ اس کی یہ ضرورت اب کبھی پوری نہ ہو سکے گی۔وہ اس وقت نشہ میں نہیں تھا نیند کی طلب تو تھی مگر ذہن پوری طرح سے بیدار تھا۔اس نے اپنے پڑوسیوں سے بھی پوچھا مگر وہ بھی اس کی بات سن کر حیران رہ گئے کہ پچاس مربع میٹر کا قیمتی ولاء اچانک کہاں غائب ہو گیا۔اس کی ہمسائی ایلن حیران ہو کر باہر نکلی اس نے دیکھا کہ جس کونے میں اس کا گھر واقع تھا وہاں خالی پلاٹ یوں اس کا منہ چڑا رہا تھا جیسے کوئی خوبصورت محل جادو کے زور سے غائب ہو جائے۔عجیب معمہ تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ایلن نے ہسپتال اپنی ڈیوٹی پہ جانا تھا ۔اس نے اسے پولیس کو فون کرنے کا مشورہ دیا ۔اس نے پولیس اسٹیشن فون کیا تو پولیس بھی یہ انوکھا کیس سن کر حیران رہ گئی۔ گھر میں چوری کی وارداتیں تو سنی تھیں مگر پورے کا پورا گھر ہی چوری ہو جائے یہ پہلی بار سنا تھا۔پانچ منٹ کے اندر اندر پولیس کی گاڑی سائرن بجاتی ہوئی تیز رفتاری کے ساتھ عملے کولیے ہوئے اس ساحلی محلے میں آن پہنچی۔یہ پچیس لگثری ہومز پہ مشتمل ایک جدید ترین کالونی تھی۔اسے مکمل ہوئے ابھی سال کا عرصہ ہی گزرا تھا۔یہاں صرف رئیس اور سمندری تفریحات کے شوقین لو گ ہی رہتے تھے۔ڈیوڈرسل کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتاتھا۔چھ ماہ پہلے جب اس نے یہ دو بیڈ رومز ولا جدید کچن اور سوانا باتھ سے مزیّن گھر خریدا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن اس کا یہ خوبصورت گھر یوں غائب ہو جائے گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔یہ دورویہ لین کا آخری گھر تھا کونے میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت اور خوبصورتی دونوں ذیادہ تھیں۔اس کا لان بھی نسبتاً بڑا تھ ااور ٹیرس بھی ذیادہ کشادہ تھا۔یہ لکڑی اور اینٹوں کے ساتھ مزیّن ایک جدید گھر تھا ۔ڈرائنگ روم کی وہ دیوار جو سمندر کی جانب تھی پوری شیشے کی تھی۔جس کے آر پار سمندراور سمندری کشتیوں کا نظارہ بآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ڈیوڈ کی منگیتر نے اسکا نام کرسٹل ولاء رکھ دیا تھا۔گھر جل جائے ٹوٹ جائے یا چوری ہو جائے تو انسان شائید کچھ قرار میں ہوتا ہے لیکن یہ پر اسرار گمشدگی تو اسے بے کل کر ہی تھی۔اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔قیمتی کاغذات اور دستاویزات تو پھر بھی بنوائی جا سکتی ہیں لیکن کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نہ تو دوبارہ خریدی جا سکتی ہیں اور نہ ہی بنائی جا سکتی ہیں۔ایک گھر کے اندر تو اس کے مکینوں کی ایک دنیا ہوتی ہے۔اس کے بچپن کی یادگار تصویریں دوستوں کے تحفے۔۔۔۔۔مگر اس گھر کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تھا وہ سب کچھ اس کی قیمتی یادوں کو بھی لے گیا تھا۔کچھ ہی دیر میں انشورنس کمپنی کے نمائندے بھی پہنچ گئے۔اپنی منگیتر کو وہ پہلے ہی بتا چکا تھا۔وہ اپنی خوبصورت سنہری آنکھوں میں حیرتوں کے سمندر سمیٹے بھاگی چلی آئی۔جو بھی ڈیوڈ کے گھر کی گمشدگی کی خبر سنتا دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا۔ڈیوڈ کا تھکن اور دکھ سے برا حال تھا۔کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے؟؟اس کے لیے چار ملین مالیت کے گھر کی گمشدگی کسی سانحہ سے کم نہ تھی۔ٹینا نے اس کی خراب حالت دیکھتے ہوئے اسے فوری طور پر اپنے گھر چل کر آرام کرنے کے لیے کہا ۔مگر اسی وقت انشورنس کمپنی کا نمائندہ ا سکے لیے ہوٹل میں کمرے کا بکنگ کارڈ لے آیا۔جسے ڈیوڈ نے فوراً قبول کر لیا۔اب اسے مکان کی گمشدگی کا معمہء حل ہونے تک یہیں رہنا تھا۔کتنی دیر یہ وہ نہیں جانتا تھا۔اوسلو کے بیچوں بیچ ہوٹل راڈیسن کی چالیسویں منزل پر سمندر کے رخ پہ اس کا بیڈ روم تھا۔وہاں سے اسکے گمشدہ گھر کا علاقہ صاف دیکھا جا سکتا تھا۔رہائش کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے اخراجات بھی انشورنس کمپنی کے ذمے تھے۔اب اسی کمپنی نے اسے ایک متبادل مکان بھی فراہم کرنا تھا ۔مگر اس سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ ڈیوڈ کا مکان گیا کہاں اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔
ڈیوڈ کو ذیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔جمعرات کی صبح جب وہ واش روم سے اسٹیم باتھ لے کر نکلا تو اس کے موبائل کی گھنٹی بجی۔یہ فون پولیس اسٹیشن سے تھا ۔ڈیوڈ رسل کے گمشدہ مکان کا سراغ مل چکا تھا مگر۔۔۔اب وہ کبھی دوبارہ ا س میں نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔یہ سن کر وہ دکھی سا ہو
گیا۔۔۔۔۔
کیا آپ جانتے ہیں اس کا مکان کہاں گیا تھا۔۔۔؟؟؟اس کے مکان کے ساتھ کیا ہوا ؟؟؟اب وہ اس میں دوبارہ کیوں نہیں رہائش اختیار کر سکتا تھا؟؟؟؟اندازہ لگائیں ۔۔اور انعام پائیں۔۔۔آپ کے جواب کا انتظار رہے گا ۔۔۔مگر ذیادہ دیر نہ لگائیں بس ایک ہفتے کے اندر اندر ۔۔۔جواب بھیجیں ورنہ ۔۔۔۔ورنہ پھر مجھے ہی بتانا پڑے گا۔۔

گمشدہ مکان“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں