آج سے چند دن بعد ذُوالحجہ کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہےاس بابرکت مہینے کی فضیلت حج کی نسبت سے ہے۔رمضان کی فضیلت و اہمیت سےتو ہم سب لوگ اگاہ ہیں ہی لیکن ان دس دنوں کی اہمیت کو کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ ذُوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی فضیلت حدیثِ مبارکہ میں اس طرح بیان ہوئی ہےنبیﷺ نے فرمایا
کہ”کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک عمل الله تعالی کو ان دس دنوں میں کئے ہوئے عمل سے،زیادہ پسند ہو
لوگوں نے پوچھا یا رسول الله !کیا جہاد فی سبیل الله کا عمل بھی ؟
آپ نے فرمایا :ہاں جہاد کا عمل بھی،ہاں البتہ وہ مجاہد جو جان ومال کے ساتھ محاذ جہاد پرنکلےاوران دونوں
میں سے کچھ بھی واپس بچا کرنہ لائے۔(صحیح بخاری)۔
چونکہ ان دنوں میں اسلام میں فرض تمام عبادات جمع ہوجاتی ہیں اس لئےان دنوں کہ اہمیت بھی دوچند ہو جاتی ہے۔تمام مسلمانوں کا بیک وقت حج پہ جا نا ممکن نہیں ہوتا لہذا گھر میں رہتے ہوئے حاجیوں کیساتھ نسبت پیدا کرنے کے لئے چند اعمال کی تاکید کی گئی ہے۔
۔1-ان دنوں زیادہ سے زیادہ تکبیرات پڑھی جائیں ان کی بہت فضیلت ہے
الله اکبر الله اکبر، الله اکبر،لا اٰلہ الّا الله والله اکبر،الله اکبر وا للِلّٰهِ الحَمْد۔
صحابہ اکرام اس کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ و حضرت ابویرہ مہء ذوالحجہ کے ان دنوں میں بازار نکل جاتے اور اونچی آواز میں تکبیرات کہتے رہتے اور دوسرے لوگ بھی سن سن کر یہ تکبیریں کہتے۔
۔2.اسی طرح 9ذُوالحجہ یعنی یوم عرفہ کا روزہ جس دن حاجی حج کرتے ہیں توجو لوگ وہاں نہیں پہنج سکتے وہ اپنے اپنے مقام پر روزہ رکھ کرحاجیوں کے ثواب میں شریک ہو سکتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے
کہ”میں خدا کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ آنے والے سال اور گزرے ہوئے سال دونوں کے لئے کفّارہ قرار پائے گا”(جامع ترمذی، مسلم)۔
نیزآپ ؐنے فرمایا
ا،”عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا اجر و ثواب ایک ہزار دنوں کے روزوں کے برابر ہے۔(الترغیب)۔
کیونکہ اس دن میدان عرفات میں جمع حاجیوں کی معافی ہوتی ہے۔گردنیں جہنم کی آگ سے آزاد ہو رہی ہوتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ اس روزے کا بہت اہتمام فرماتے تھے،یوم عرفہ سے پہلے کے آٹھ دنوں میں روزہ
رکھنے کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے۔
نبی ﷺ کا ارشادہے،”کہ دنوں میں کسی دن کی عبادت بھی خدا کو اتنی محبوب نہیں ہے جتنی ذُوالحجہ کے ابتدائی عشرے میں محبوب ہے،اس عشرے کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اِس میں ہر رات کی نفل نماز شبِ قدر کے نوافل جیسے ہیں”۔(جامع ترمذی ،الترغیب)۔
3
اسی طرح قربانی،جس کا حکم تمام شریعتوں میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے پہلی قربانی حضرت آدم علیہ الاسلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل قربانی ہےہر سال مسلمان حضرت ابراہیم کی سنت پر عمل پیرا ہوتا ہوئے قربانی کا اہتمام کرتےہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام جنھیں الله سبحانہ و تعالی نے اپنا دوست قرار دیا وہ اپنے دوست کے حکم پر اپنا بیٹا بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔لہذا ان دنوں قربانی بھی الله تعالی کی قربت کا ذریعہ بنتی ہے۔کہ قربانی لفظ ہی قربت سے ہےْقربانی کی فضیلت حدیث شریف میں ہے۔
۔”خدا کے نزدیک نحر کے دن (یعنی دسویں ذُوالحجہ کو) قربانی کا خون بہانے سےزیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے قیامت کے روز قربانی کا جانور اپنے سینگ،بالوں،اور کھروں سمیت حاضر ہو گا۔اور قربانی کا خون زمیں پر گرنے نہیں پاتا کہ خدا کے یہاں مقبول ہو جا تا ہے لہذا قربانی دل کی خوشی اور پوری آمادگی سے کیا کرو”۔
صحابہؓ نے پوچھایا رسول الله !یہ قربانی کیا چیز ہے؟
ارشاد فرمایا یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے،پوچھا یا رسول لله! اس میں ہمارے لئے کیا اجر و ثواب ہے؟ ارشاد فرمایا ہر ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی، صحابی نے کہا اور اون کے بدلے یا رسول الله! فرمایا ہاں اُون کے ہر ہر رُوش کے بدلے میں بھی ایک ایک نیکی ملے گی”(ترمذی،ابن
ماجہ)۔
نیز یہ کہ آپ نے فرمایا ” جس نے ذُوالحج کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لہذا چاہیے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔”۔
ان دنوں میں ہمیں چاہیے کہ حاجیوں سے نسبت کے لئے بھی اپنے ناخن اور بال نہ کاٹیں۔اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال بجا لائیں تاکہ اجر و ثواب میں حاجیوں سے نسبت رہے۔ لڑائی جھگڑا تو ویسے ہی مومن کے شیان شان نہیں ہے لیکن ان دنوں زبان کا استعمال بھی احتیاط سے حتٰی کہ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ سے بھی گریز کریں جو کہ حج کے دنوں میں بطور خاص ممنوع
ہے ان تمام اعمال کا اہتمام کر کےہم گھر بیٹھے ایک مقبول حج کا ثواب حاصل کر سکتے ہیں، الحمد للّٰله۔
تمام احادیث بحوالہ “آسان فقہ”۔
ساجدہ پروین
اسلامک کلچرل سنٹر، اوسلو، شعبہ نشر و اشاعت
Sajda bohot h i mofid or khobsoorat tehrir hai.Parh kar bohot khushi hoi
Allah ham sab ko amal ki tofiq ata farmaey.
Aamin
Shazia
JAZAKALLAH ALLAH Aap ke ilm mein barkat de ye azeem mehnat qabool farmae AAMEEN