گھڑے کی مچھلی

fish قاری حنیف ڈار



ھادیہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کا ایک ھی بھائی تھا جو اس سے بڑا تھا ،، یہ گھرانہ مغل کشمیری ذات سے تعلق رکھتا تھا – ھادیہ کے والد سابقہ ائیر فورس کے ریٹائرڈ آفیسر تھے ، کاروبار میں آئے تو ان کی ایمانداری نے دنیا میں بھی پھل کچھ اس طرح دیا کہ وہ مٹی کو ھاتھ لگاتے تو وہ سونا بن جاتی – وہ کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی میں رھتے تھے جہاں ان کے بہت سارے ولاز تھے جن کو ان
ہوں نے رینٹ آؤٹ کر رکھا تھا !

بیٹا امریکہ میں پڑھنے کے بعد جاب کے لئے کنیڈا شفٹ ھو گیا تھا ، ھادیہ ان کے پاس تھی اور وھی ان کی دنیا تھی ،، ھادیہ نہایت ذھین اور باکردار لڑکی تھی ، اللہ پاک نے حسن کے خزانے اس پر لُٹا دیئے تھے اور وہ ان کی امین بھی تھی – یونیورسٹی میں لڑکے پاگل ھوئے پھرتے تھے اور وہ تھی کہ لپٹی لپٹائی گاڑی سے اترتی کلاس میں اپنے کام سے کام رکھتی ،سہیلیوں کے انتخاب میں بھی وہ نہایت باذوق تھی ، چند ایک لڑکیوں کے سوا اس نے کسی کو دوستی کے قابل نہ سمجھا ، تین سال یونیورسٹی میں پڑھتے ھوئے ھو چکے تھے مگر ھادیہ نے یونیورسٹی کی کینٹین تک نہیں دیکھی تھی،،
ایسا بھی نہیں کہ وہ ھر وقت ھاتھ میں تسبیح رکھتی تھی اور قبر کو یاد کر کے روتی سسکتی رھتی تھی ،گھر کی ھادیہ کوئی نرالی چیز تھی ، وہ گھر میں چہچہاتی پھرتی لطیفے سنتی اور سناتی تھی، گھر اس کے قہقوں سے گونجتا رھتا تھا، والدین کے ساتھ اس کے تعلقات اب بھی بچگانہ بنیادوں پر تھے ،، وہ اسے بچی سمجھ کر ڈیل کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ بچی بن کے رھتی تھی !

ھادیہ کی کانووکیشن کے موقعے پہ ڈاکٹر سرفراز کی والدہ نے ھادیہ کو دیکھا اور اگلے ھی ھفتے بیٹے کا رشتہ لئے آ پہنچیں ،، ھادیہ کے والدین کو پہلی دفعہ احساس ھوا کہ ان کی بیٹی نہ صرف جوان ھو گئ ھے بلکہ پرائی چیز ھے اور اب آنے والوں کا سلسلہ شروع ھو جائے گا – ڈاکٹر سرفراز سائیکالوجسٹ تھا مگر ذرا مغرور قسم کا تھا ،لگتا تھا خود اس کے ساتھ کوئی نفسیاتی مسئلہ تھا ،شاید اس نے اسی وجہ سے اس فیلڈ کو چنا تھا – والدہ کے اصرار اور ھادیہ کی تصویر دیکھنے کے بعد اس نے ماں کو اپنی رضامندی کا سگنل دے دیا ،، ھادیہ کے والد نے بھی بیٹے اور بیٹی سے مشورہ کرنے کے بعد ھاں کر دی ،،
اگلے چھ ماہ شادی کی تیاری میں گزرے اور ھادیہ دھوم دھام سے اپنے پیا کے گھر سدھار گئ – چند ماہ تو نہایت خوشی سے گزرے اور پھر آئستہ آئستہ رشتے برفناک ٹھنڈک کا شکار ھوتے چلے گئے ،، ڈاکٹر سرفراز مریضوں کے ساتھ تو نہایت پیار اور گرم جوشی سے پیش آتے ، شاید یہ ان کا بزنس تھا ،،مگر گھر داخل ھوتے ھی ان کی شخصیت پر دھند کی چادر تن جاتی ،، وہ ھادیہ کو بیوی اور گھر کا فرد سمجھنے کی بجائے ھاؤس میڈ سمجھنا شروع ھو گئے ،، وہ جو نرس کو بلاتے تو آواز سے شہد ٹپکتا مگر ھادیہ کو بلاتے وقت رعونت اور اجنبیت ان کے لہجے پہ غالب ھوتی ! ھادیہ مغل کے والدین بھی بیٹے کے پاس کنیڈا منتقل ھو گئے تھے ، دو سال گزر گئے تھے اور ابھی تک گھر میں تیسرے فرد کی آمد کے کوئی آثار نہ تھے ،، اولاد ھو تو عورت کو اپنا دکھ بھلانے میں مدد مل جاتی ھے اور وہ اپنے آپ کو اولاد میں گم کر دیتی ھے ،مگر یہاں یہ بہانہ بھی میسر نہ تھا ،، سارا دکھ اکیلی ھادیہ کی جان کو ھی بھگتنا تھا ! والدین کو اپنے بیٹے کی نفسیاتی کیفیت کا علم تھا ،انہوں نے سوچا تھا کہ اتنی خوبصورت بیوی پا کر شاید ان کا بیٹا نفسیاتی طور پہ متوازن ھو جائے مگر ھادیہ کو اپنے بیٹے کی دوا کے طور پر استعمال کرنے والے والدین اب شرمندہ شرمندہ سے تھے ،، ھر بگڑے بچے کو درست کرنے کا ایک ھی فارمولا والدین کے دماغ مین آتا ھے کہ ” شادی کر دو ٹھیک ھو جائے گا ” اور اگر ٹھیک نہ بھی ھو تو ان کا جاتا ھی کیا ھے ؟

یہ انسانی نفسیات کا المیہ ھے کہ جونہی کوئی چیز اس کی ملکیت میں آتی ھے وہ اپنی اھمیت کھو دیتی ھے ،بیوی ھو یا گھر – گاڑی ھو یا گھڑی ،، چشمہ ھو یا جوتا ،، ،، جونہی وہ اس کی ملکیت بنتی ھے تو ملکیت کی نفسیات ایکٹیو ھو جاتی ھے ،، یہ تو ھے ھی میری ،، یہ تو میرے گھڑے کی مچھلی اور گھر کی مرغی ھے جب جی چاھے پکڑ لو ،، توجہ طلب تو دوسری ھیں جو کسی اور کی ملکیت ھیں اور جنہیں ھنس بول کر چارہ ڈالنا مقصود ھوتا ھے ! آپ کسی کو بھی رستے میں پکڑ کر پوچھیں کہ آج اس کی بیوی نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ھیں ؟ یقین جانیں 99٪ لوگ نہیں بتا سکیں گے ،، یہ تو ھے توجہ کا معاملہ ۔۔، اسی سے آپس میں قلبی تعلق کا اندازہ بھی کر سکتے ھیں !!

آپ نے لطیفہ پڑھا ھو گا حالانکہ یہ لطیفہ نہیں حقیقت ھے ،،

ایک صاحب نے اپنا مکان بیچنا تھا تو اپنے دوست پراپرٹی ڈیلر سے کہا کہ وہ ان کے مکان کے لئے اچھا سا گاھک ڈھونڈے ،، دوست نے ایک اچھا سا اشتہار بنا کر لگا دیا ،جس میں مکان کی لوکیشن اور خوبیاں بڑی تفصیل سے بیان کی گئیں تھیں،، دوسرے دن اشتہار پڑھ کر اس کے دوست نے اسے فون کیا کہ اشتہار منسوخ کر دے وہ مکان بیچنے کا ارادہ ترک کر چکا ھے ،، دوست کے استفسار پہ انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں احساس ھی نہیں تھا کہ وہ اتنی خوبیوں کے حامل ایک مکان کا مالک ھے جو اس کے لئے بہت بڑی نعمت ھے !

ھادیہ اسی ملکیت کی نفسیات کے عذاب سے گزر رھی تھی – اسے اللہ نے حوروں کے حسن سے ھی نہیں نوازا تھا ،جنتیوں کی سیرت بھی عطا کی تھی، اس نے کسی کو اس معاملے کی ھوا بھی نہ لگنے دی آخرکار اللہ پاک کو اس کی بےبسی پر ترس آ گیا ! ڈاکٹر سرفراز کے کلینک میں شاھنواز چانڈیو نام کا مریض اپنے نفسیاتی مرض کے علاج کے لئے آیا ،،شاھنواز چانڈیو ایک جاگیردار کا اکلوتا بیٹا تھا جو لندن سے ماسٹر کر کے لوٹا تھا ،، دو سالوں میں دو بیویوں کا طلاق دینے والا شاھنواز اب تیسری بیوی کو بھی طلاق دینا چاھتا تھا ،مگر یہ بیوی بھی ایک بہت بڑے جاگیردار کی بیٹی تھی جو بارسوخ سیاستدان بھی تھا،، شاھنواز کے والدین کو خطرہ تھا کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس کا سسر اس کو مروا دے گا ، وہ پوچھتے پچھاتے اسے مشہور ماھرنفسیات ڈاکٹر سرفراز کے پاس لے آئے تھے ! یہ شاھنواز ” ھادیہ ” سے ایک سال سینئر تھا جو اسی آغا خان یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ، وہ بھی جاگیرداروں کی سی اکڑ رکھتا تھا اور کسی کو لفٹ نہیں کراتا تھا مگر ھادیہ نے اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا ،، وہ ھادیہ کی ایک مسکراھٹ کے لئے ترستا تھا ،، مگر ھادیہ نے کبھی پلٹ کر کسی کی طرف نہیں دیکھا تھا ،، شاھنواز نے ڈاکٹر سرفراز کو بتایا کہ وہ ھادیہ سے شادی کرنا چاھتا تھا کوئی فلرٹ نہیں کرنا چاھتا تھا ،، ڈاکٹر صاحب وہ لڑکی اس زمین کی مخلوق نہیں تھی ،، وہ کوئی دیوی تھی جو اس زمین پر اتار دی گئ تھی ، میں اس کا کچھ بھی بیان نہیں کر سکتا وہ بس دیکھنے کی چیز تھی ، حسین لڑکیوں سے گلیاں محلے ،اسکول کالجز اور یونیورسٹیاں بھری پڑی ھیں ،، وہ حسین نہیں تھی وہ تو حسن کا ماڈل تھی حسن کا تعارف تھی ،، اس کا چلنا ، بات کرنا ،جمائی لینا ،، دیکھا ،منہ موڑنا ، الغرض ھر حرکت اتنی نپی تلی ھوتی تھی کہ نظر نہیں ھٹتی تھی،، میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ کیا اس مخلوق کو اپنے بارے میں کوئی علم بھی ھے کہ وہ کیا چیز ھے یا نہیں ،،کیا وہ شیشہ نہیں دیکھتی ھو گی ،، وہ شیشہ ٹوٹ نہیں جاتا ھو گا ،،،، ڈاکٹر صاحب میں نے کئ دفعہ کوشش کی کہ اس میں کوئی عیب ڈھونڈ لوں جس کو ہتھوڑا بنا کر میں ھادیہ کے بت کو توڑ سکوں ،مگر مجھے عیب کی تلاش میں بھی خوبیاں ھی ملیں ،، شاھنواز چانڈیو بول رھا تھا اور ڈاکٹر سرفراز کے اندر بگولے اٹھ رھے تھے ،چیزیں اس کے اندر یوں آواز کے ساتھ ٹوٹ رھی تھیں جیسے برتنوں سے بھری ٹرے کسی کے ھاتھ سے گرے تو ھر برتن اپنی مخصوص آوازکے ساتھ ٹوٹتا ھے ،، اس کے اندر کا مرد بیدار ھو چکا تھا وہ چاھتا تھا کہ شاھنواز چپ کر جائے ،، وہ اسے بتانا چاھتا تھا کہ وہ دیوی کب سے ایک دیو کی قید میں ھے ، جو اسے گھر میں ڈال کر بھول گیا ھے کہ اسے کس نعمت سے نوازا گیا تھا ،،

شاھنواز نے بتایا کہ اب اسے ھر عورت ھادیہ لگنا شروع ھو گئ تھی ،، ھر طرف نظر آنے لگ گئ تھی ، وہ کبھی کبھی کسی عورت کو ھادیہ کے نام سے پکار بھی لیتا ،مگر پاس جانے پر وہ کوئی اور ھی عورت نکلتی ، اسے چھ ماہ کے لئے لندن کے ایک نفسیاتی اسپتال میں داخل بھی کرایا گیا ،، پاکستان آ کر اسے جب پہلی عورت کی تصویر شادی کے لئے پیش کی گئ تو وہ اسے ھادیہ ھی سمجھا اور ھاں کر دی ،،مگر پہلے دن ھی اسے پتہ چل گیا کہ اس کے ساتھ فراڈ ھوا ھے ، اسے تصویر تو ھادیہ کی دکھائی گئ مگر نکاح کسی اور عورت کا کرا دیا گیا ،، تین ماہ بعد طلاق ھو گئ ،، ایک سال کے بعد پھر شاھنواز کی شادی کی کوشش کی گئ اور اس دفعہ بھی ایسا ھی ھوا کہ وہ اسے ھادیہ سمجھ کر بیاہ لایا اور پھر فراڈ کا شور مچا دیا ،، اب کہ چھ ماہ بعد طلاق ھو گئ ،، تیسری بیوی کے ساتھ بھی یہی چکر چل رھا ھے،،

اگلے دو ماہ بڑے انقلاب انگیز تھے ،، شاھنواز ھادیہ کا بت ڈاکٹر سرفراز کے اندر بناتا جا رھا تھا جس طرح مادام تساؤ کے میوزیم میں مجسمے بنائے جاتے ھیں اور ڈاکٹر سرفراز اپنی پوری کوشش کر رھا تھا کہ شاھنواز کے اندر سے ھادیہ کے اس بت کو توڑ دے جو تیسری عورت کا گھر برباد کرنے جا رھا تھا !شاھنواز آئستہ آئستہ ھادیہ کو ڈاکٹر سرفراز کے اندر انسٹال کر رھا تھا ،جبکہ ڈاکٹر سرفراز اسی ھادیہ کو شاھنواز چانڈیو کے اندر سے ان انسٹال کرنے کے جتن کر رھا تھا – کئ قسم کی دوائیوں کے استعمال اور کئ نشتوں کے تنویمی عمل کے بعد آخر کار ھادیہ کو شاھنواز کے اندر سے نکال باھر کیا گیا تھا ،، آخری نشست کے بعد ڈاکٹر سرفراز ،، شاھنواز کو اس کی پراڈو تک چھوڑنے آیا ،، اس نے آج تک ادا کی گئ ساری فیس کا چیک شاھنواز کی گاڑی کے ڈیش بورڈ پہ رکھا اور کہا شاھنواز صاحب ،، آپ میرے دوست ھیں ،، میں آپ کی ساری ادا کردہ فیس واپس کر رھا ھوں ،، اللہ پاک آپ کے گھر کو آباد کرے ،،یہ کہہ کر سرفراز آئستہ آئستہ قدم اٹھاتا اپنے کلینک کی طرف چل دیا ،، شاھنواز ھکا بکا اسے دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا !!

ڈاکٹر سرفراز اس دن جب گھر واپس آیا تو وہ حسبِ معمول اپنے کمرے میں جانے کی بجائے کچن میں کھانا گرم کرتی ھادیہ کی طرف چلا گیا ،، ھادیہ نے چونک کر پیچھے دیکھا تو سرفراز کو گھورتے پایا ،، وہ گھبرا سی گئ ،، آج سرفراز اسے شاھنواز کی نظروں سے دیکھ رھا تھا ،، آج وہ اسے ایک غیر مرد کی نظروں سے دیکھ رھا تھا اور ایک غیر عورت کی حیثیت سے دیکھ رھا تھا ،، گھڑے کی مچھلی کی حیثیت سے نہیں ،، وہ آئستہ آئستہ آگے بڑھا ،، ھادیہ کے ھاتھ میں پکڑا برتن اس کے ھاتھ سے لے کر سامنے ریک میں رکھا اور ھادیہ کے ھاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا ،، ھادیہ مجھے معاف کردو اگرچہ میں معاف کیئے جانے کے قابل نہیں ھوں ،، میں نے تمہارے ساتھ بہت ظلم کیا ھے ، تمہاری بہت ناقدری کی ھے ،، اللہ مجھے معاف فرمائے مگر یہ تو تبھی ھو گا جب تم مجھے معاف کرو گی ،، ندامت اور پچھتاوے آنسو بن کر ڈاکٹر سرفراز کی آنکھوں سے بہے چلے جا رھے تھے ،، ھادیہ اسے سہارا دے کر ڈرائنگ روم میں لائی اور اسے صوفے پر بٹھا کر اس کے سامنے اپنے قدموں پر بیٹھ گئ اور سر اس کی گود میں رکھ کر بولی ،، ڈاکٹر صاحب صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ھوا نہیں کہتے ،، آپ نے مجھے کوئی فزیکل سزا تو نہیں دی تھی ،، رویئے کا تشدد تھا جسے آپ کے رویئے نے پل میں مندمل کر دیا ،،

اللہ پاک نے اگلے سال انہیں ایک بیٹے سے نواز دیا جب کہ مزید دو سال بعد وہ ایک بیٹی سے بھی نوازے گئے

اپنا تبصرہ لکھیں