ہاجرہ مسرور: آخری اسٹیشن آگیا
زاہدہ حنا 19 ستمبر 2012
ایک ایسے زمانے میں جب ہندوستان کا کونہ کونہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھا، اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ سید سجاد ظہیر، ڈاکٹر رشید جہاں، ملک راج آنند اور دوسروں نے شعرو ادب کے میدان میں کیسے کیسے چراغ روشن کیے۔ چند برسوں کے اندر کیسے کیسے بڑے نام سامنے آئے۔
آج یہ سمجھنا مشکل ہے کہ تحریک سے وابستہ ادیبوں کی تحریروں نے آزادی کی طلب اور تڑپ میں کیسا اضافہ کیا۔ ایک قافلہ تھا جو انسانوں کو دکھوں اور ان کے عذابوں سے نجات دلانے کے لیے رواں دواں تھا۔ انھوں نے جس آزادی کا خواب دیکھا تھا وہ روپہلے اور سنہرے دنوں کے خواب تھے۔
سماج کے حاشیوں پر زندگی کی تہمت اٹھانے والوں کی جہالت، بھک مری اور ذلت سے نجات دلانے کے خواب۔ اس کے برعکس آزادی خون میں تربتر آئی۔ خواب ٹوٹے اور ان کی کرچیاں سب ہی کی آنکھوں میں چبھ گئیں۔ یہی وہ عالم تھا جس کو فیض نے یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر کہہ کر پکارا تھا اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔
آزادی کی جدوجہد اور ترقی پسند تحریک کے اسی منظر میں جہاں پریم چند، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور جوش مخدوم، سردار جعفری، کیفی اور ساحر دھومیں مچا رہے تھے وہیں لکھن کے نواح میں دو بہنیں پیدا ہوئیں۔ ان دونوں بہنوں نے آنکھ کھولی تو گھر میں خوشحالی تھیں لیکن بچپن میں باپ رخصت ہوئے اور خاندان پر مفلسی نے اپنے پنکھ پھیلائے۔ ماں اور باپ دونوں ہی شعرو ادب کے دلدادہ تھے۔
باپ چلے گئے لیکن کتابوں سے بھری ہوئی الماریاں رہ گئیں۔ ماں اس وقت کے پرچوں عصمت (دلی) اور سہیل (علی گڑھ) میں چھپتی تھیں۔ اس ماحول میں خدیجہ اور ہاجرہ نے اگر ادب کے دامن میں پناہ لی تو یہ کچھ حیرت کی بات نہیں۔ جس عمر میں لڑکیاں گڑیوں کو بیاہتی تھیں اور دوپٹے رنگتی تھیں، ہاجرہ اور خدیجہ نے کہانیاں لکھنی شروع کیں اور کہانیاں صرف لکھی ہی نہیں، اس وقت کے ادبی پرچوں میں شایع بھی ہونی لگیں۔
اردو ادب کے ثقہ قارئین کے لیے ابھی ڈاکٹررشیدجہاں اور عصمت چغتائی کا صدمہ ہی کیا کم تھا جنہوں نے زندگی کے ان ڈھکے چھپے گوشوں کو عریاں کردیا ۔ہاجرہ اور خدیجہ ان کے بعد آئیں لیکن انھوں نے بھی وہی روش اختیار کی۔ فرق تھا تو اتنا کہ انھوں نے متوسط اور نچے متوسط طبقے کی لڑکیوں کے نفسیاتی مسائل اور جنسی گھٹن کے علاوہ بھی ان کی زندگیوں کے کئی پہلو اجاگر کیے۔ انھوںنے جس طرح اپنے پڑھنے والوں کو چونکایا اور یہ ان کی کامیابی تھی۔
جہاں ڈاکٹر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کا طوطی بول رہا ہو اور قر العین حیدر کی کہانیاں اردو افسانے کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کررہی ہوں، ایسے میں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلینا ایک اہم بات تھی۔ یہ وہ دور تھا جب تقسیم رشتوں کوکاٹ اور دلوں کو بانٹ رہی تھی ۔
ہاجرہ مسرور نے تقسیم کے زمانے اور اس کے بعد کی حشر سامانیوں، سماج کے طبقات کی لوٹ پلٹ اور متوسط نچلے متوسط طبقے کی زندگیوں میں ہونے والی اتھل پتھل کی نقش گری بہت مہارت سے کی۔ان کے وہ افسانے جو تیسری منزل میں شایع ہوئے ان کے نمایندہ افسانے کہے جاتے ہیں۔
تیسری منزل کے افسانوں کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ممتاز افسانہ نگار اور تخلیقی نقاد ممتاز شیریں نے ٹرومین کپوٹے کے مشہور ناولٹ بریک فاسٹ ایٹ ٹفنیز کو یادکیا تھا اور لکھا تھا کہ تیسری منزل کے افسانوں کا مطالعہ ایسا ہی مسرت انگیز ہے جیسے آپ نے بریک فاسٹ ایٹ ٹفنیز کا مطالعہ کرلیا ہو۔ ممتاز شیریں کا یہ جملہ ذہن میں کھب کر رہ گیا۔
شہر میں یہ فلم آئی تو اسے جاکر دیکھا۔ نیویارک کے طبق اعلی کے محلے مین ہیٹن میں زیورات کی مشہور دکان ٹفنیز کے سامنے فلم کی بوہیمن ہیروئن ہولی جس کا کردار آڈرے ہپ برن نے کیا تھا، کھڑی ہے اور دلکش زیورات کو قاتلانہ انداز میں دیکھ رہی ہے۔
مون ریور گا رہی ہے اور چھاجوں برستی بارش میں اپنی چہیتی بلی کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے اور اس کا محبوب پال جو اسی عمارت میں رہتا تھا جہاں ہولی کا قیام تھا۔ اس فلم کو دیکھ کر یہ سوچتی رہی کہ ممتاز شیریں کو ٹرومین کپوٹے کا یہ ناولٹ ہاجرہ مسرور کے افسانوں کے حوالے سے کیوں یاد آیا۔ بہت بعد میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ان دونوں کا موازنہ انھوں نے مسرت انگیزی کے حوالے سے کیا تھا۔
جنگ عظیم ختم ہورہی تھی جب ہاجرہ مسرور کو 1944 میں لاہور سے چھپنے والے اپنے پہلے مجموعے چرکے کی رائلٹی 40 روپے ملی اور اس کے فورا بعد شایع ہونے والے مجموعے ہائے اللہ پر انھیں 600 روپے رائلٹی ملی جو اس وقت کے حساب سے ایک بڑی رقم تھی۔
قر العین حیدر نے ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان دونوں بہنوں نے زیادہ تر مسلم مڈل کلاس کی عکاسی کی ۔ وہ انھیں نیچرل رائٹر کہتی تھیں۔ کار جہاں دراز ہے میں انھوں نے لکھا کہ ان کے یہاں آورد کے بجائے آمد ہی آمد تھی۔ اور ان کے افسانے اردو کے افسانوی ادب میں ایک اضافہ ثابت ہوئے۔ یہ لکھنو شہر کے ایک قدامت پسند گھرانے میں پردہ نشین رہیں اس کے باوجود انھوں نے بڑی بے خوفی سے اپنے افسانے لکھنے شروع کیے جن کی وجہ سے انھیں عصمت چغتائی کی مقلد کہا گیا۔
انگریزی کے ایک ممتاز صحافی اور کالم نگار آصف نورانی نے نومبر 2000 میں ان کا ایک انٹرویو لیا تھا جس میں ہاجرہ مسرور نے کہا تھا کہ وہ اپنی خود نوشت لکھنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ آصف نے اس بارے میں اور کچھ نہیں لکھا لیکن میرے خیال میں شاید وہ اس بارے میں سوچتی ہی رہیں۔ وہ ایک سیاسی ناول لکھنے کے بارے میں بھی سوچتی رہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شادی نے ان کے تخلیقی سفر کی رفتار بہت مدہم کردی اور اب تو لگ بھگ 35، 40 برس سے ادب کا راستہ تقریبا بھول گئی تھیں۔
آصف نورانی نے اپنے انٹرویو میں ان کی تیسری بہن عائشہ جمال کو بھی یاد کیا جو حسن عابدی سے بیاہی گئیں۔ لکھتی تھیں اور ان کی کہانیوںکا مجموعہ گرد سفر کے نام سے شایع ہوا تھا۔ شاید اسی لیے آصف نورانی نے لکھا کہ یہ تینوں بہنیں شارلٹ اور ایملی برونٹی سے مشابہت رکھتی ہیں جن کی تیسری بہن این برونٹی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن وہ بھی کہانیاں لکھتی تھی۔
ان دونوں بہنوں میں سے خدیجہ مستور 1982 میں رخصت ہوئیں اور ان کے 30 برس بعد گوشہ گیری کی زندگی گزار کر ہاجرہ مسرور بھی بہن سے اور ترقی پسند تحریک کے متعدد ادیبوں سے ملنے چلی گئی ہیں۔ ہاجرہ مسرور میرے لیے اپی تھیں۔ ان کے اور میرے درمیان تعلق اور پھر گہرے تعلق کا رشتہ ان کے لالہ احمد ندیم قاسمی کی وجہ سے قائم ہوا تھا۔
میں نے ان کے متعدد افسانے پڑھے تھے، ان کی بہت قائل تھی لیکن ذاتی تعلق کا معاملہ کچھ اورہوتا ہے۔ قاسمی صاحب نے میرے ایک خط کے جواب میں لکھا تھا کہ تم ہاجرہ سے ملو، وہ تمہاری رہنمائی کریں گی اور انھیں اطلاع دی تھی کہ ایک لڑکی تم سے ملنے آئے گی۔ یہ 1966 کے وہ دن تھے جب میں ہفت روزہ اخبار خواتین میں اسسٹنٹ ایڈیٹر تھی۔ 60 کی دہائی میں یہ ہفت روزہ اعلی اور متوسط طبقے کی خواتین میں بے حد مقبول تھا۔ دفتر اس کا P.E.C.H.Sہائوسنگ سوسائٹی بلاک 6 کی 42 اسٹریٹ پر تھا اور اپی اس سے کچھ ہی فاصلے پر رازی روڈ کے ایک گھر میں رہتی تھیں۔
کیسی کیسی باتیں ملاقاتیں یاد آرہی ہیں۔ قاسمی صاحب کراچی آئے ہیں۔ اپی نے فون پر مجھے اطلاع دی ہے ۔ شام کے سمے میں بھی جا پہنچی ہوں۔ رازی روڈ والے گھر کا چھوٹا سا آنگن ہے، اس میں بید کی کرسیاں اور میز ہے۔ چائے ناشتے کا اہتمام ہے۔ اپی اپنی دلکش ساڑی کا پلو سمیٹے لالہ کی مدارت میں مصروف ہیں۔ قر العین حیدر اور ان کا ناول آگ کا دریا زیر بحث ہے۔
سال بھر پہلے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 17 روز کی دھائیں دھائیں ختم ہوئی ہے اور دونوں طرف کے ادیب اس بارے میں خاصی کٹر قوم پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ سردار جعفری کی اس حوالے سے ایک خوبصورت نظم آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے نشر ہوچکی ہے۔ پاکستان کے کسی ادبی رسالے شاید افکار میں چھپ بھی چکی ہے۔
میں خوشی سے نہالوں نہال ہوں۔ ترقی پسند تحریک کے دو نہایت اہم ناموں کو دیکھ رہی ہوں اور ان سے باتیں کررہی ہوں۔ یہ وہ زمانے تھے جب ہم اپنے شاعروں اور ادیبوں کو اسی طرح دیکھتے تھے جیسے وہ ہمالہ کی چوٹی پر بیٹھے دیوی دیوتا ہوں۔ ادب ، ادیبوں کا جو احترام تھا، وہ اب کبھی کا رخصت ہوچکا، اس لیے اس دور کی باتیں اب قصہ کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔ ان سے وابستہ کتنی بہت سے باتیں اور یادیں ہیں۔ جن کا ذکر اگلی نشست میں۔
(جاری ہے)
__._,_.___