شازیہ عندلیب
سب ان کی منتیں کر رہے تھے۔پلیز مان جائیں۔۔۔سائرہ عفت،نبیلہ ثمینہ اور صبوحی انہیں منانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں۔لڑکیاں بڑے التجاء بھرے لحجے میں حد درجہ بیچارگی چہرے پر سجا کر بار بار مس منزہ سکی منت کر رہی تھیں مگر مس منزہ ان کے چہروں پر بکھری بے چارگی سے بے نیاز اپنی ضد پر اڑی ہوئی تھیں۔آج ان کی کوئی ضد کوئی التجاء اور کوئی واسطہ ان پر اثر نہیں کر رہا تھا۔ وہ چہرے پر ایک گھمبیر سی سنجیدگی سجائے سر نہوڑائے ہر بار انکار کر دیتیں۔یہ سلسلہ پچھلے دس منٹوں سے جاری تھا۔کبھی ایک لڑکی ان کے سامنے منت سماجت کرتی تو کبھی دوسری ۔۔سب کے چہروں پر فکر اور پریشانی کے سائے لہرا رہے تھے۔ایک بے چینی اور بے یقینی کی سی کیفیت تھی جو انہیں چین نہیں لینے دیتی تھی۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کیسے منایا جائے۔فکر کے مارے لڑکیوں کے تروتازہ چہرے پیلے پڑ رہے تھے۔
ادھر مس منزہ جن کے ابھی تک ہاتھ پیلے نہیں ہوئے تھے لال لپ اسٹک لگائے چہرے پہ سنجیدگی سجائے میز سے ٹیک لگائے کھڑی تھیں۔مس منزہ منصور درمیانے قد اور بھرے جسم کے ساتھ صاف رنگت کی مالک شخصیت تھیں۔آنکھیں موٹی اور دانت نسبتاً اونچے تھے۔اکثر سرخ یا عنابی لپ اسٹک لگاتی تھیں جو ان کی صاف رنگت پر کھلتی تھی مگر اکثر لپ اسٹک ان کے اگلے دانتوں پر بھی لگ جاتی تھی۔لیکن اس سے ان کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ ان کے دانتوںپہ لگی لپ اسٹک اسی وقت دیکھی جا سکتی تھی جب وہ مسکراتی تھیں۔اور وہ تو بہت کم مسکراتی تھیں۔ان کے چہرے پر ہر دم ایک گھمبیر اداسی بھری سنجیدگی سی چھائی رہتی۔جو اس وقت اور بھی گہری ہو جاتی جب انہیں کسی سہیلی کی شادی کی خبر ملتی ۔لیکن وہ شادی میں خوشی خوشی شریک ہوتی تھیں۔اس اسکول کی پرنسپل بھی ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔انتہائی شفیق اور مس منزہ کے بر عکس ہر دم مسکرانے والی ۔وہ اکثر اسکول کی طویل راہداریوں میں میں کس سفید ساڑہی میں ملبوس کسی روح کی طرح کئی سو دانوں والی طویل تسبیح پکڑ کر رولتی رہتی تھیں۔تسبیح میں ہر سال کئی دانوں کا اضافہ ہوتا رہتا تھا۔یوں لگتا تھا تسبیح بھی ان کی عمر کے ساتھ لمبی ہو رہی تھی۔یوں لگتا تھا جیسے تسبیح کے دانوں میں اضافہ ہی دراصل انکی عمر میں اضافہ کا سبب تھا۔دیکھنے میں وہ بہت تندرست اور چاک و چوبند نظر آتی تھیں۔کئی بچوں کے ضعیف دادا دادی اور دیگر بزرگ اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ جب وہ اس اسکول میں پڑہتے تھے اس وقت اور آج کی پرنسپل کی صحت میں نہ فر ق پڑا اور نہ ہی انکی عمر ڈھلنے کے آثار نظر آئے۔اس بات کی کئی شہادتیں موجود تھیں کہ مس عمر بانو کی عمر بزرگوں کی یاد داشت کے حساب سے اسی برس جبکہ علم قیافہ کے حساب سے ساٹھ برس اور ظاہری مشاہدہ کے مطابق پچاس برس کے اریب قریب تھی۔تاہم مس عمر بانو کی اصل عمر ایک ایسا سر بستہ راز تھا جس پر سے آج تک کوئی پردہ نہ اٹھا سکا۔وہ ایک محبت و شفقت کا پاکیزہ پیکر تھیں۔ہر ایک سے نہائیت شفقت سے پیش آتیں ۔بہت شائستگی سے شستہ انگلش میں جواب دیتیں تھیں۔ اکثر سفید ساڑھی میں دور سے کوئی روح مگر پاس سے پری معلوم ہوتی تھیں۔جب کوئی اسٹوڈنٹ انہیں سلام کرتا اور پوچھتا ہائو آر یو میڈم تو بہت پیار سے جواب دیتیں ۔مگر انکی آواز اس قدر باریک تھی کہ عالم ارواح سے آتی ہوئی معلوم ہوتی۔ان کی دلکش اور ذہین آنکھیں ہر دم عینک کے شیشوں کے پیچھے سے چمکتی رہتی تھیں۔
یہ شہر کا سب سے بڑا سکول تھا رقبہ اور اسٹینڈرڈ دونوں کے لحاظ سے۔اسکا رقبہ کئی ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔اس کے س پاس گودام تھے۔اس کے دو بڑے گیٹ تھے۔اس سکول کے ساتھ کالج اور یونیورسٹی کی عمارتیں بھی شامل تھیں ۔اس طرح یہ اسکول نرسری کلاس سے لے کر ایم اے تک تھا۔ ا س میں گرلز ہاسٹل بھی تھا۔ گرلز کالج نے معاشرے کو کئی معروف ہستیوں سے نوازا بعض کو تو بین القوامی شہرت ملی ۔کوئی سیاست میں کارہائے نمایاں انجام دے رہا تھا تو کوئی شوبز کی دنیا اور میڈیا میں تہلکہ مچا رہا تھا۔غرض یہ کہ اسکول ایک مہنگا پرائیویٹ اسکول ہونے کے باوجود ایک اسٹیٹس سمبل تھا۔ جبکہ اسکول سے کچھ فرلانگ کے فاصلے پر میڈیکل کالج تھا اور اس سے آگے ایک سینمہ تھا جو بعد میں پلازہ بنا دیا گیا۔اسی کے قریب مس منزہ کا وسیع بنگلہ بھی تھا۔ انکا تعلق ایک تاجر گھرانے سے تھا۔اس قدر دولت مند اور خوبصورت ہونے کے باوجود ابھی تک ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اس کی ایک خاص وجہ تھی۔وہ یہ کہ انکا تعلق ایک ایسے عظیم صحابی کے خاندان سے تھا جس میں کسی غیر برادری یا ذات میں شادی نہیں کی جاتی تھی ۔اسی لیے پچھلی چودہ صدیوں سے انکی نسل خالص چلی آ رہی تھی۔اس لیے مس منزہ کی بھی شادی نہ ہو سکی۔
لڑکیاں انہیں ابھی تک ملتجی نگاہوں میں امید بھر کر دیکھ رہی تھیں ان کے حالیہ انکار کے باوجود اگلی لائن میں بیٹھی لڑکی سائرہ مغفور نے آخری بار ہمت کی انہیں بڑے دلار سے قائل کرنے کی کوشش کی۔مس پلیز مان جائیں نا صرف ایک بار ۔مس منزہ کوآخر انکی بات مانناہی پڑی۔۔۔۔ زچ ہو کر بولیں ٹھیک ہے۔وہ لڑکی خوشی سے چیخی!! کہ انہوں نے ایک زور دار شش کی آواز نکالی تووہ لڑکی اس خیال سے سہم گئی کہ وہ کہیں انکا اقرار پھر انکار میں نہ بدل جائے۔ اس لڑکی نے ساتھ والی لڑکی کے کان میں سرگوشی کی میڈم مان گئیں۔اچھا میڈم نے ہاں کردی اس نے سرگوشی میں استفار کیا۔ہاں۔۔ ہاں ہوگئی ہے۔سائرہ نے دبی دبی ہنسی کے ساتھ کہا ۔بس پھر کیا تھا یہ خبر ایک کان سے دوسرے کان کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پوری کلاس میں پھیل گئی۔آخری لائن میں بیٹھی لڑکی کے کان میں یہ خبر پہنچی تو اس نے خوشی سے چلا کر کہا ہاں ہو گئی !!!! مبارک ہو اسلامیات کا ٹیست اب جمعرات کو نہیں سوموار کو ہو گا بس پھر کیا تھا ساری کلاس میں قہقہے گونج اٹھے اور مس منزہ بھی بے اختیار مسکرا اٹھیں۔پھر کچھ عرصہ بعد سنا کہ مس منزہ بھی اسی سال دلہن بن کر پیا دیس سدھار گئیں۔
wah g wah, kya zbrdst end kiya ap ne. acha laga
حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ راحیلہ