رپورٹ شازیہ عندلیب
ہفتہ کی شام بیورن ڈال سوندرے نور استاند مسجد میں بچوں میں موبائل اورسوشل میڈیا کے اثرات کے موضوع پر ایک سیمیار منعقد کیا گیا۔سیمینارکی منتظم اعلیٰ ناظمہ اورمعلمہ ساجدہ پروین اور ناظمہ و معلمہ ثمینہ رضوان تھیں۔جبکہ میڈیکل ریسرچر ربیعہ انجم اور سائیکالوجسٹ نتاشہ نے اس موضوع پر مفید معلومات دی۔
سب سے پہلے عافیرہ بلال نے تلاوت قرآن پاک کی۔اس کے بعد پروگرام کے شروع میں موضوع کے حوالے سے یہ وضاحت کی گئی کہ ڈیجیٹل آؒ لات اور میڈیا معلومات ،خبریں اور تعلیم حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں۔آج کے تیز رفتار دور میں ٹیکنالوجی کے بغیر ترقی کا تصور بھی محال ہے۔ اس لیے ہم اس کے خلاف نہیں ہیں۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے اضافی استعمال،پر کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس وجہ سے کئی معاشرتی سائڈ ایفیکٹس بچوں اور بڑوں کے ذہنوں پر منفی اثرات کا باعث بن رہے ہیں۔جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ اخلاقی گراوٹ ،تنزلی اور جرائم میں اضافہ کا شکار نظر آتا ہے۔
ان نقصانات،اور خطرناک عوامل کا جائزہ لینے اور ان پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس پروگرام کا اہتمام بیورن ڈال مسجد میں بھی کیا گیا ہے۔اس سے پہلے آئی سی سی میڈیاگروپ اسی موضوع پر اوسلو سینٹر کی تھوئین مسجد میں یہ پروگرام کامیابی سے کر چکا ہے۔
یہ پروگرام اردو ویب سائٹ اردو فلک ڈاٹ نیٹ کے اشتراک سے پیش کیا جا رہا ہے ۔اس وقت سائٹ کے اسلامی صفحہ کی ایڈیٹر ساجدہ پروین بھی یہاں بطور میزبان موجود ہیں۔یہ سائٹ ناروے میں اردو قارئین تک پاکستانی کمیونٹی کو خبریں پہنچانے کا کام سر انجام دے رہی ہے۔
اسکے بعد سائیکالوجسٹ نتاشہ نے چھوٹے بچوں سے لیکر اٹھارہ سال کی عمر تک کے بچوں کے دماغ پرڈیجیٹل میڈیا کے اثرات کے مختلف زاویوں اور پہلوؤں سے جائزہ لیا۔انہوں نے بتایا کہ وہ خاص طور سے ایک سال سے کم عمرکے بچوں پر موبائل کے استعمال سے پڑنے والے اثرات پر تحقیقی کر رہی ہیں۔نتاشہ نے بتایا کہ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ چھوٹے بچوں پر موبائل کے اثرات کا کوئی اثرنہیں ہوتا۔اس لیے اکثر مائیں بچوں کو کھانا کھلاتے وقت موبائل پر گیم لگا دیتی ہیں جو کہ وقت کے ساتھا ساتھ ایک پختہ عادت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ موبائل کے ذیادہ استعمال کی وجہ سے بچے کی حسیات میں مناسب اضافہ نہیں ہو پاتا۔جبکہ دماغ ایسا انسانی عضو ہے جو کہ بچے کی پیدائش کے بعد پچیس سال کی عمر تک مکمل ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج کے بچے کی دنیا سوشل میڈیا کے گرد گھومتی ہے۔ان کے دوست کھیل اور دیگر مشاغل اسی پر تکمیل پاتے ہیں۔سوشل میڈیا ان کے دوستوں سے رابطہ کا اہم ذریعہ ہے اس لیے ہم اسے کم تو کر سکتے ہیں مگر دور نہیں کر سکتے۔
پھر نتاشہ نے ایک مختصر وڈیو فلم کے ذریعے چھوٹے بچوں کے ذہن پر موبائل کے اثرات اور ماں کی توجہ حاصل کرنے کو واضع کیا۔
اس کے بعد خواتین نے نماز عصر ادا کی اور ریفریشمنٹ لی ۔جس کے بعد پروگرام کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔جس میں میڈیکل اسٹوڈنٹ اور دماغی افعال پر ریسرچ کرنے والی محقق ربیعہ انجم نے دماغ کی ساخت کے حوالے سے ڈیجیٹل میڈیا کے اثرات کا جائزہ لیا۔انہوں نے بتایا کہ آجکل محققین مختلف جانوروں کے دماغ کی ساخت پر تحقیقی کر رہے ہیں۔اس لیے کہ دماغ ایک پیچیدہ عضو ہے جس کے بارے میں مکمل معلومات ابھی تک نا پید ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہیں ٹین ایج بچوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تب انہیں پتہ چلا کہ کہ یہ بہت مشکل عمر ہے جس میں بچوں کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پروگرام کے اختتام میں پروگرام کے شرکاء نے ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے بچوں کے مسائل کے حل پوچھے۔ایک خاتون ے یہ سوال کیا کہ بچے موبائل پر اتنا ذیادہ وقت استعما ل کرتےء ہیں کہ گھر والوں کے ساتھ بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔ایک دوسری مہمان خاتون نے پوچھا کہ انکا بیٹا بیس برس کا ہے لیکن جب وہ ان سے کوئی ضروری بات کرنے کی کوشش کریں تو وہ دونوں ہاتھ اوپر اٹھ اکر معذرت کر لیتا ہے کہ ابھی نہیں میں مصروف ہوں کسی اور وقت بات کریں۔اس لیے بچوں کو موبائل سے اٹھانا ہی بہت مشکل ہے۔
ربیعہ نے بتایا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم آج پہلے زمانے کی خواتین کی طرح بچوں کو کہانیاں سنائیں۔اس کے لیے چاہے آدھا گھنٹہ ہی کیوں نہ نکالیں دوسرے کاموں کے دوران بھی بچوں سے گفتگو جاری رکھیں تاکہ ان کے ساتھ ذہنی رابطہ رہے۔
اس سلسلے میں ایک اور تجویز یہ پیش کی گئی کہ مائیں بچوں کی تربیت اور گھر کے ماحول کے لیے اردو فلک ڈاٹ نیٹ پر تین اقساط میں چھپنے والے رہنماء اصول پڑہیں جو کہ محترمہ ساجدہ پروین صاحبہ نے لکھے ہیں جن کا عنوان ہے کہ گھر کے لیے بھی قوانین ہونے چاہیءں۔
ان اقساط کو اس لنک پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
“گھر کیلئے بھی ویسا ہی ایک دستور اور قانون ہو جیسے کسی
ریاست یا ملک کیلئے ہوتا ہے۔
پروگرام کے آخر میں آئی سی سی کی معلمہ اور
https://www.urdufalak.net/urdu/2017/12/24/78947
ناظمہ محترمہ ثمینہ رضوان نے پروگرام پر تبصرہ کیا اور اسے بچوں کی تربیت کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا۔اس کے بعد انہوں نے اختتامی دعا کروائی۔