ہمارا سب سے بڑا مسئلہ

افکار تازہ
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ
عارف محمود کسانہ
سائنسی، معاشی اور تعلیم و تحقیق کے میدان میں دنیا کے دیگر ممالک سے پیچھے رہ جانا کوئی المیہ نہیں بلکہ اصل المیہ اخلاقی زوال اور تربیت کا نہ ہونا ہے۔ انسانی اوصاف و کردار اور اقدار کا نہ ہونا ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایک فرد سے لے کر قوم تک بحیثیت مجموعی ہمارے طرز عمل میں تربیت کا شائبہ تک نہیں۔ ہمارا مسئلہ تعلیم نہیں بلکہ تربیت ہے۔ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تو دور جہالت میں نہیں ہوتاہوگا۔ بڑی بڑی عمارتیں، عظم شاپنگ مال اور سڑکوں میں دوڑتی ہوئی گاڑیوںسے کسی معاشرہ کو ترقی یافتہ نہیں کہہ سکتے بلکہ اخلاق و اقدار اور اعلیٰ روایات کی بدولت ہی وہ ملک اور معاشرہ یافتہ کہلا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سنگ و خشت کے حوالے سے ضرور ترقی ہوئی ہے لیکن انسانی اوصاف کے حوالے سے ترقی معکوس ہوئی ہے اور مزید تنزلی کی طرف سفر جاری ہے۔انسانی ترقی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا درجہ مزید گر گیا ہے اور 189 ممالک میں ہم 152 مقام پر کھڑے ہیں۔ معاشرہ قبضہ گروپوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے اور لا قانونیت کا دور دورہ ہے۔ اس کے برعکس یورپی ممالک کو آپ جو کچھ بھی کہیں لیکن وہاں کا معاشرہ اصول و ضوابط، قانون کی حکمرانی، احترام باہمی اور تربیت یافتہ معاشرہ کی مثال ہے۔ پاکستانی کیسا معاشرہ ہے جہاں قانون دان ہی قانون شکن ہیں۔ وکیل ہسپتالوں پہ حملے کررہے ہیں۔ ڈاکٹر طبی اخلاقیات سے بے بہرہ ہیں۔ سیاست ناجائز مال بنانے کا ذریعہ ہے۔ قوم کے محافظ جان و مال اور آبرو کے لٹیرے ہیں۔ تاجر ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ سرکاری عمال قومی وسائل دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کاروبار بن چکی ہے۔ درس گاہوں میں مہنگی تعلیم تو دی جاتی ہے لیکن تربیت نہیں اوراساتذہ کو صرف تنخواہ سے غرض ہے۔ مہنگے تعلیمی ادارے اپنے طلبہ کے تعلیمی نتائج کو فخر سے پیش کرتے ہیں لیکن کیا کوئی ایک تعلیمی ادارہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کے فارغ التحصیل طلبا اچھے انسان اور اخلاق و کردار کی تربیت رکھتے ہیں؟ افسر شاہی کو صرف اپنی مراعات اور مفادات عزیز ہیں۔ لاقانونیت قابل فخر سمجھی جاتی ہے اور نظام انصاف پر کسی کو اعتماد نہیں۔ علماءدینی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اور سب سے بڑھ کر ملک کا بیڑا غرق کرنے میں عدلیہ کا اہم کردار ہے۔ حکومت بے بس اور خلفشار کا شکار ہے۔ وطن صرف زمین، پانی اور پہاڑوں کا نام نہیں بلکہ یہ وہاں کے رہنے والے باشندوں سے عبارت ہے اور پاکستانی عوام نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ہم اس قدر پستی کا شکار ہیں کہ مومن اور مسلمان ہونا تو درکنار ہم انسان کہلانے کے بھی حق دار نہیں اور اس پر عظیم المیہ یہ کہ ہمیں احساس زیاں بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں ہمیں کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔دعوت و تبلیغ کے لئے یورپ کا رخ کرنے والوں کو اپنی کوشش پاکستان پر مرکوز کرنی چاہیے جہاں اس کی شدید ضرورت ہے۔
لاہور میں امراض قلب کے ادارہ پر وکلا کے حملہ نے انسانیت کو شرمسار کرکے رکھ دیا ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کا بہت بری تصویر پیش کی ہے۔ عالمی میڈیا میں یہ خبر گردش کرنے کے بعد دنیا بھر کے لوگ پاکستانیوں کے بارے میں منفی تاثر چھوڑا ہے۔ اس سانحہ کی ابتدا وکلا کی جانب سے مفت ادویات اور ترجیحی بنیادوں پر علاج کا مطالبہ تھا جو کہ سراسر غلط ہے۔ سرکاری اداروں میں سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ ادارہ امراض قلب پر وکلا کے حملہ کی وجہ ایک ویڈیو بتائی جاتی ہے لیکن یہ جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ قانون دان ہونے کے دعویداروں کو قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا اور حملہ انتہائی ظالمانہ عمل ہے۔ اس پر مزید رونا یہ ہے کہ بار ایسوسی ایشن ان حملہ آور وکلا کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہی ہیں حالانکہ انہیں ان کالی بھیڑوں کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران انتخاب جیتنے کے یہ سب کرتے ہیں۔ بار کے انتخابات میں ایک امیدوار سے ایک بار پوچھا کہ آپ لاکھوں روپے ان انتخابات پر کیوں خرچ کرتے ہیں جو صرف ایک سال کے لئے ہوتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ انتخابات جیتنے کی صورت میں اس سے کئی گنا رقم ایک سال میں کما ئی جاسکتی ہے اور وہ ہ ایسے کہ بار کا صدر جب عدالت میں پیش ہوتا ہے تو جج کی اس پر نظر عنائیت ہوئی ہے اور مقدمات کا فیصلہ اپنے حق میں کروا کے سودا نفع بخش رہتا ہے۔ وکلا پا کستان میں ایک قبضہ گروپ بن چکا ہے اور کسی میں انہیں روکنے کی جرات نہیں۔معاشرہ کے دیگر طبقے بھی کوئی دودھ سے دھلے ہوئے نہیں لیکن غنڈہ گردی میں وکلاءصف اول میں ہیں۔ قانون شکن کسی ایک وکیل کو بھی نشان عبرت بنایا ہوتا اور اس کا لائیسینس منسوخ کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔لیکن اب بھی کچھ نہیں ہوگا کیونکہ وہی عدالتیں اور وہی نظام ہے ۔ کچھ عرصہ بعد لوگ اس واقعہ کو بھی بھول جائیں گے اور سخت سزا کے حکومتی دعویٰ پہلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔طلبہ اور وکلا دو ایسے طبقے ہیں جو جب چاہیں اور جہاں چاہیں اپنی من مانی کریں۔ شنید ہے کہ حکومت طلبہ یونین بھی بحال کررہی ہے جس سے رہی دہی کسر نکل جائے گی۔ تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑہ تو بنیں گے ہی لیکن منہ زور طلبہ یونین کے روز تماشے دیکھنے کو ملیں گے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا سانحہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔اس لئے طلبہ یونین بحالی کا مشورہ حکومت کے کسی بہی خواہ کا نہیں ہوسکتا اور یہ بحال نہیں ہونی چاہیں۔
اس مرض کہن کا علاج یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کا آغاز گھروں سے کریں۔ بڑے جس روش پر چل رہے ہیں وہاں ان کی تربیت بہت مشکل ہے لیکن نئی نسل پر توجہ دیں۔ماں باپ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کریں، تدریسی ادارے تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے اور جو وکیل یا ڈاکٹر اپنے پیشہ کے اصولوں کے منافی کام کرے ، اس کا لائسینس منسوخ ہونا چاہیے۔ اخلاقی جرائم میں ملوث افراد کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ ذرائع ابلاغ میں اقدار اور کردار کی تعمیر کے لئے خصوصی مہم شروع کی جانی چاہیے۔ دین کی اخلاقی تعلیمات کا عام کرنے کی ضرورت ہے۔علامہ اقبال اس سلسلہ میں فرماتے ہیں جمال نبویﷺ کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن قوم کی اخلاقی تربیت کے لئے اخلاق نبویﷺ کی تعلیم عام کرنے کی ضرورت ہے۔فرد سے قوم تک ، سب کے انداز فکر میں تبدیلی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر حالات ایسے ہی رہیں گے۔ کتاب عظیم نے یہ سنہرا اصول وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔
Vedleggsområde

اپنا تبصرہ لکھیں