بُھساوَلمیں ہمارے ایک بزرگ دوست اور معروف ادیب رشید عباس ہیں جو خیر سے آپ کے محبوب روزنامے کے دیرینہ قاری اور قلمی معاون بھی رہے ہیں۔ ایک طویل مدت اُنہوں نے ریلوے کی ملازمت میں گزارے۔ چونکہ ریل میں بھانت بھانت کے مسافروں سے اُن کا تقریباًروزانہ کا سابقہ تھا لہٰذا ہر طرح کے انسانوں کی نفسیات کے مطالعے کے انھیں خاصے مواقع میسرہوئے۔ موصوف فطرتاً ایک حساس اور چاق و چوبند آدمی ہیں لہٰذا ہر طرف انکی نظر بھی کام کرتی رہی۔ ایک ملاقات میں اُنہوں نے بتایا کہ ” انگریزوں سے آزادی اور تقسیمِ ملک کے بعد سرکار دربار سے وابستہ یعنی برسرِ اقتدار طبقے کی جانب سے انتظامیہ کےلئے خفیہ طور پر ایک زبانی سرکولر جاری ہوا کہ اگر کوئی مسلمان اپنے علاقے میں کسی بھی طرح کا مجرمانہ پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اغماض برتا جائے، اگر کسی کی گرفتاری وغیرہ ہوتی بھی تھی تو بس کاغذپر“
آپ ذرا تیس چالیس برس اُدھر اپنے ممبئی شہر ہی کے مسلم علاقوں کی تاریخ دیکھیں تو ہر گلی میں آپ کو ایک دادا( یہ لفظ بالکل آج کے’ بھائی‘ کی طرح تھا) ضرور ملے گا۔غربت کے بارے میں آپنے وہ مشہور قول تو سنا ہی ہوگا کہ ’ انتہائے افلاس آدمی کو کفر تک لے جاتا ہے ۔‘ ظاہرہے ہر مسلمان تو ولی اللہ نہیں ہوتا اور عام آدمی کی برداشت کی حدیں بھی بڑی مختصر ہوتی ہیں۔ لہٰذا اُس دَور کے مسلمانوں کاایک بڑاطبقہ کفر خفی میں مبتلا ہوا اور یہ عارضہ ایسا لگا کہ مدت گزرنے کے بعد بھی پوشیدہ امراض کی طرح اُمت کے جسد کو خراب کرتا رہا بلکہ پھر تو یہ ہوا کہ اس بیماری نے ہماری نفسیات ہی کو دبوچ لیا اور اُس سے بری بات یہ ہوئی کہ ہمیں اس کا احساس بھی نہیں رہا کہ ہم کس درجے خرابی کی طرف بڑھ چکے ہیں؟ سچ تو یہ بھی ہے کہ اتنی طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی اس خرابی کا ہمیں جیسا احسا س ہونا چاہئے، اب بھی نہیں ہے۔
ہمارے دوسرے بزرگ بھی بتاتے ہیں کہ اُس زمانے کے سرکاری اداروں میں اگر کوئی باصلاحیت مسلمان کسی اچھے عہدے کےلئے درخواست گزار ہوتا تھا تو اس کی درخواست کو کچھ اس طرح کنارے کیا جاتا تھا کہ درخواست گزار اپنی ہمت و حوصلہ ہی گنوا بیٹھتا تھا۔
کسی نے مروت کی نگاہ ڈالی تو ہم اس پر جان ایمان سے قربان ہوجاتے ہیں۔ یہاں کی بات نہیں مگر ہمیں اپنے وطن کے لوگ یاد آتے ہیںجن میں ایک طبقہ تو ایسا تھا کہ ان کے نزدیک اِیمان دھرم کی حیثیت ثانوی تھی۔ مثلاً ہم نے ایک قول سنا تھا کہ ” میاں! وہ پیدائشی اورخاندانی کانگریسی ہیں، کچھ ہوجائے وہ کانگریس کو نہیں چھوڑ سکتے۔“
اس کی ایک تازہ مثال بھی پیش کر دی جائے ۔ ہمارے ایک بنارسی دوست کل مل گئے ہم نے اُن سے پوچھا کہ بھئی بنارس والوںسے رابطہ ہے؟ جواب ملا: جی ہاں۔ ہم نے اُن سے دوسرا سوال کیا: وہاں الیکشن کے بارے میں لوگوں کاکیا رُجحان ہے۔؟ بنارس سے مودی کے الیکشن لڑنے پر کیا بنارسی مسلمان متحد ہو ئے یا ہو سکتے ہیں؟ جواب ملا:” ہونہہ مسلمان اگر متحد ہوجائیں توکیا بات ہے!! آپ کو شاید نہیں معلوم کہ ہمارے ہاں کے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ فطری طور پر کانگریسی ہی ہوتا ہے اس کے بعد وہ سب کچھ ہو سکتا ہے اور اپنی اوّلین صفت کو وہ کبھی نہیں بھولتا۔ بنارس ہی میں نہیں ہم کہیں بھی اگر متحد ہو جائیں تو وہ تعجب کی بات ہوگی۔“
ظاہر ہے کہ بنارس ہی سے اروند کیجری وال بھی الیکشن کے میدان میں اُترے ہوئے ہیں اور انھیں جو بھی ووٹ ملیں گے وہ سیکولر ووٹ ہی ہونگے اب ذرا سوچئے کہ اروند کیجری وال کچھ ووٹ لےں گے اور اُن کے بعد سی پی آئی کے امیدوار بھی کچھ نہ کچھ ووٹ لیں گے ہی اور اُنھیں بھی سیکولرووٹ ہی ملیں گے۔ سماج وادی کے کیلاش چورسیا بھی اسی سیکولر ووٹ کے ساجھے دار ہونگے اور وِجے پرکاش جیسوال جو بی ایس پی کے امیدوار ہیں د لتوں کے ووٹوں کی کثیر تعداد انہیں کے حق میں ہوگی۔ جو لوگ انتخابی حساب کتاب کے ماہر ہیں وہ اندازے قائم کر سکتے ہیں کہ انہی اندازوں ہی سے حقیقت کا سورج نکلے گا۔ یہاں آپ کو بتا دِیا جائے کہ گزشتہ عام انتخابات میں بنارس کے ووٹ کیسے تقسیم ہوئے تھے۔ بی ایس پی کے مختار انصاری نے۱۸۵۹۱۱ ووٹ لئے، سماج وادی کو۲۳۸۷۴ ۱ووٹ ملے تھے اور کانگریس صرف ۶۶۳۸۶ ووٹ ہی حاصل کرسکی تھی یعنی بی جے پی کے مرلی منوہر جوشی کے خلاف۳۷۶۱۷۱ ووٹ ڈالے گئے مگر جیتے جوشی ہی کہ وہی ایسے امیدوار تھے جنہیں سب سے زیادہ (۲۰۳۱۲۲) ووٹ ملے تھے۔ اس بار بی جے پی کے اُمیدوار اور وزیر اعظم کے منصب کے دعوے دار مودی کےلئے ہندوتوکی تمام قوتیں بنارس میں مجتمع ہےں اور ہمارے لوگ یہ سب دیکھ رہے ہیں مگر بس دیکھ ہی رہے ہیں۔ بیچارے اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں کہ ان میں بڑی تعداد تو فطری اور پیدائشی کانگریسی ہے۔
ایک قول یاد آتا ہے کہ بینا وہ نہیں جو نوشتہ ¿ دیوار ہی پڑھ لے بینا تو وہ ہے جو دِیوار کے پیچھے کیا لکھا ہے وہ بھی پڑھ لے۔
مسلمانوں کاووٹ یکطرفہ طور پر اگر کسی امیدوار کو ملے تبھی کوئی کرامت رونما ہو سکتی ہے اور ہمیں یہ توپتہ ہے ہی کہ ہم میں سے اکثریت ایک مریضانہ نفسیات رکھتی ہے۔ ایسے میں کیا ہو سکتا ہے سوچتے رہئے۔ کسی نے بہت جھنجھلا ہٹ کے ساتھ کہا تھا کہ ” میاں!بھنگی بنا دِیا گیاہے ہمیں اور ہم ہیں کہ ابھی تک’ شیخ صاحب ‘بنے اکڑے ہوئے ہیں۔“
اللہ پر یقین اور اعتماد یقینا کام کرتا ہے مگر جبھی کہ ہم نے اپنی ذمے داری پوری حکمت کے ساتھ ادا کی ہوتو قدرت کی طرف ہمیں اُمید بھری نگاہ سے دیکھنے کا حق ہے ورنہ توبقول نظیر اکبر آبادی سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا!! ن۔ص