از عابدہ رحمانی
اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ غذا انسانی جسم کے لیے ایندھن کا درجہ رکھتی ہے۔ انسانی جسم کو فعال اور بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے متناسب اور متوازن غذا کی ضرورت ہوتی۔ہمارے ہاں بیشتر گھرانوں میں خوش ذائقہ کھانوں کو اولیت حاصل ہے۔ ہر خاتون خانہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عمدہ سے عمدہ پکوان تیار کر کے گھر والوں اور دیگر احباب سے داد تحسین حاصل کرے۔ لیکن بیشتر خواتین اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ غذا اس طریقے سے پکائی جائے جس سے غذائی اجزاء کم سے کم ضائع ہوں۔غذا کے بنیادی اجزاء کاربوہائیڈریٹ یعنی نشاستہ لحمیات یا پروٹین، چکنائی، حیاتین اور معدنی نمکیات ہیں۔ اناج، گوشت اور دالیں پکاتے وقت نشاستہ، لحمیات اور چکنائی کا ضیاع کم ہوتا ہے لیکن حیاتین اور معدنی نمکیات زیادہ تر ضائع ہو جاتے ہیں۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حیاتین ’ا‘ اور ’ف‘ کے علاوہ باقی تمام حیاتین پانی میں حل ہو جاتی ہیں اس کے علاوہ معدنی نمکیات میں کیلشیم، فاسفورس اور لوہا وغیرہ پانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے۔حیاتین میں سے حیاتین ’ج‘ اور تھایا میں حرارت سے ضائع ہو جاتی ہے۔
بیشتر گھرانوں میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دال سبزی اور گوشت وغیرہ کو خوب دھویا جاتا ہے اس طریقے کو لوگ صفائی سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کھانے کی کافی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔بہتر یہ ہے کہ گوشت اور کلیجی وغیرہ ثابت دھو کر پھر اس کے ٹکڑے کاٹے جائیں اس طرح گوشت کلیجی میں موجود حیاتین اور معدنی نمکیات کم سے کم ضائع ہوں گے۔ ورنہ اگر ٹکڑے کٹے ہوئے ہوں اور صاف کرنا ضروری ہو تو یہ طریقہ غلط ہے کہ گوشت کو پانی میں بھگو کر اسے بار بار دھویا جائے عام طور سے یہ دیکھا ہے کہ گوشت وغیرہ سے خون نچوڑ کر پکایا جاتا ہے اس سے گوشت میں موجود فولاد اور دیگر حیاتین ضائع ہو جاتے ہیں۔
زیادہ حرارت سے اور تیز آنچ پر گوشت، انڈے اور دالیں پکانے سے ان میں موجودلحمیات جل جاتی ہیں۔ اس لیے ان اشیاء کو درمیانی تپش پر پکانا چاہیے۔ تنور میں یا کوئلوں پر گوشت بھوننے سے پانی ٹپک ٹپک کر کافی غذائیت ضائع ہو جاتی ہے لیکن کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اگر پکایاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔عام اصول یہ ہے کہ آنچ اگر تیز ہو تو غذائی اجزاء زیادہ ضائع ہوں گے جبکہ درمیانی آنچ پر اس کا خدشہ نہیں ہے۔ اگر کھانا پریشر ککر میں پکایا جائے تو غذائی اجزاء کم ضائع ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں عموماً لوگ انڈے کی زردی کو اہمیت دیتے ہیں جبکہ سفیدی کو غیر مفید سمجھتے ہیں حالانکہ انڈے کی سفید میں خاص لحمیات ہوتے ہیں کمزور معدے والے افراد کو انڈے کی سفیدی کچھ کچی حالت میں دینا بہتر ہے اس سے یہ زود ہضم ہوجاتا ہے۔ زیادہ تلا ہوا اور سخت انڈا دیر سے ہضم ہوتا ہے۔
اس طرح دودھ کو بھی ہلکی آنچ پر ابالنا بہتر ہے۔ تیز آنچ، دودھ کے پنیری مادوں کے سوا لحمیات کو منجمد کر دیتی ہے۔ کم ابلا دودھ زود ہضم ہوتا ہے دودھ ہلکی آنچ پر چولہے پر رکھ دیا جائے جب اس پر بالائی کی سطح جم جائے تو چولہے سے اتار دیاجائے۔
اگر گھر میں فریج موجود نہ ہو تو بیکٹیریا گرم موسم میں دودھ خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں اس لیے دودھ کو ایک مرتبہ اور دن میں ہلکی آنچ پر پکا لینا چاہیے۔ کچا دودھ یا کم ابلا ہوا دودھ جلد خراب ہو جاتا ہے۔
سبزیاں اورپھل:
ان میں حیاتین اور معدنی نمکیات بکثرت ہوتے ہیں۔ پھلوں کا مسلمہ اصول تو کھانے کا یہ ہے کہ ان کو ثابت دھو کر استعمال میں لایاجائے اور عام طور سے ایسا ہی ہوتا ہے۔سبزیاں البتہ بیشتر گھرانوں میں دیکھا ہے کہ چھیلنے، کاٹنے کے بعد دھوئی جاتی ہیں اس سے ان کی بیشتر غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ اس لیے کافی غذائی اجزاء پانی میں شامل ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر اکثر خواتین پیاز کاٹ کر اس کے لچھے خوب دھوتی ہیں تاکہ اس کی کڑواہٹ نکال دیں حالانکہ پیاز میں کافی مقدار میں فولاد پائی جاتی ہے جو کہ پانی میں ضائع ہو جاتی ہے۔
اسی طرح ساگ، آلو، مولی، گاجر، لوکی اوردیگر کئی سبزیاں چھیلنے، کاٹنے کے بعد دھوئی جاتی ہیں۔ صفائی کے پیش نظر خواتین ان سبزیوں کو خوب مل مل کر دھوتی ہیں اور پوری غذائی اجزاء کا بیشتر حصہ پانی میں بہ جاتا ہے۔ یہ اصول بنایا جائے کہ سبزیاں ثابت چھلکے سمیت دھو لی جائیں۔ مٹی وغیرہ اچھی طرح صاف کر دینی چاہیے۔ پالک اور دیگر ساگ بھی ثابت پتے پانی میں دھو کر نکالنے چاہییں اور پھر کاٹے جائیں۔چھلکے والی سبزیوں کو پتلے چھلکے اتار کر اور اگر سبزی کچی ہے تو اسے چھری سے کھرچ دینا چاہیے مثلاً توری، ٹنڈے، لوکی وغیرہ۔ چھلکا اتارنے کے بعد سبزی کاٹ کر اورفوراً استعمال میں لانا چاہیے اس لیے کہ بعض کٹی ہوئی سبزیوں کو دیر تک ہوا میں رکھنے کی وجہ سے آکسیجن ان میں موجود حیاتین کو ضائع کر دیتی ہے۔ اکثر سبزیوں کا رنگ ہوا کے کیمیائی عمل سے بدل جاتا ہے۔
اگر سبزیاں کاٹنے کے کافی دیربعد پکائی جائیں یا پکاتے وقت برتن پر ڈھکنا نہ رکھا جائے تو کافی حیاتین ضائع ہو جاتی ہیں۔ابالنے والی سبزیاں بہتر ہے کہ چھلکے سمیت ابالی جائیں۔ پانی اتنا استعمال کرنا چاہیے کہ ابالنے کے بعد زیادہ پانی پھینکنا نہ پڑے بلکہ بہتر ہے کہ پانی کی اتنی مقدار میں سبزی ابل جائے۔
ہمارے ہاں عموماً سبزیاں خوب بھون کر کھائی جاتی ہیں۔ حالانکہ اس عمل سے سبزی کی بیشترغذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ سبزیاں کم درجہ حرارت اور کم سے کم وقت میں پکائی جائیں۔ساگ وغیرہ یا تیز خوشبو والی سبزی پکاتے وقت شروع میں پانچ، دس منٹ کے لیے ڈھکنا ہٹا دینا چاہیے اس سے اگزالک ایسڈ بھاپ کے ذریعے نکل جاتا ہے اگر یہ ترشہ کھانے میں موجود ہو تو کیلشیم ہضم ہونے میں مشکل ہو تی ہے۔
اکثر خواتین پالک وغیرہ ابال کر اس کا پانی پھینک دیتی ہیں جس کی وجہ سے اس کے غذائی اجزاء کا زیادہ حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس طریقے سے گریزکرنا چاہیے۔ سلاد کے طور پر استعمال ہونے والی سبزیاں مثلاً گاجر، مولی، ٹماٹر، مولی کے پتے، کھیرے، ککڑی وغیرہ صاف دھو اور کاٹ کر کچے استعمال کرنا بیحد مفید اور حیاتین و معدنی نمکیات سے بھرپور ہے۔
وزن کم کرنے والی خواتین کے لیے سلاد کی پلیٹ ایک بھرپور غذا مہیاکر سکتی ہے۔ ان اشیاء کے استعمال سے وزن میں اضافہ بھی نہیں ہوتا۔
اس لیے جن سبزیوں کو کچا کھایا جا سکتا ہے انہیں صاف دھو کر کاٹ کر کچا استعمال کیاجائے۔ دھنیا، پودینے کے صاف پتے، سلاد اور سالن پرچھڑکے جائیں تو غذائیت میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔
دالیں، چاول وغیرہ۔
دالیں بھی ہمارے لیے غذائی اجزاء کا اہم ذخیرہ ہے ان میں لحمیات، نشاستہ اورحیاتین و معدنی نمکیات موجود ہوتے ہیں۔
دالیں بھی بیشتر خواتین کافی مل مل کر اور خوب دھوتی ہیں۔اس دھلائی میں ان کی بیشتر غذائی اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں۔ دال کو چننے کے بعد ایک مرتبہ یا دو مرتبہ دھوناکافی ہے وہ بھی محض اس لیے کہ مٹی گرد وغیرہ صاف ہو جائے اس طرح اکثر خواتین دالیں بھگو دیتی ہیں اور پھر پانی پھینک کر استعمال کرتی ہیں اس طرح سے کافی اجزاء پانی میں مل کر ضائع ہو جاتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ دالیں وغیرہ دھونے کے بعد بھگوئی جائیں اور پھر انہیں اس پانی میں پکایا جائے۔
چھلکے والی دالیں کھانا زیادہ مفید ہے کیونکہ چھلکے والی دالوں میں حیاتین کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ دالوں میں گلانے کی غرض سے میٹھا سوڈا ڈال دیتے ہیں اس سے دال تو گل جاتی ہے لیکن حیاتین ضائع ہو جاتی ہیں۔
دال کے علاوہ چاول کا بھی بیشتر خواتین یہی حال کر دیتی ہیں۔ چاول کو چھلکا اتارنے میں اس کی حیاتین ب مخلوط اور معدنی نمکیات کافی ضائع ہو جاتے ہیں۔
مشینوں سے صاف کیے ہوئے چاول کی نسبت گھر میں کوٹے ہوئے چاول یا جوشی جاول زیادہ غذائیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس میں پکاتے وقت کچھ بو آتی ہے لیکن غذائی اعتبار سے یہ بہتر ہوتے ہیں۔ملوں میں صفائی کے بعد چالوں میں جو غذائیت بچ جاتی ہے وہ خواتین پکانے میں ضائع کر دیتی ہیں اس لیے کہ چاولوں کو پانی میں خوب دھویا جاتا ہے جس سے تھایا مین اور نکوٹینک ایسڈ پانی میں حل ہو کرضائع ہو جاتے ہیں۔
بعض خواتین چاول بھگو کر رکھ دیتی ہیں اور پانی پھینک کر استعمال کرتی ہیں۔ اس سے بھی کافی غذائی اجزاء ضائع ہو جاتے ہیں۔ چاول کو بھی محض ایک یا دو بار کھنگالنا کافی ہے چاول پکا کر اس کا پانی یا پیچ پھینکنا غلط طریقہ ہے اس طریقے سے چاول میں صرف نشاستہ باقی بچتا ہے اور بیشتر غذائیت ضائع ہو جاتی ہے۔ چاول پکاتے وقت اندازے سے اتنا پانی ڈالا جائے کہ چاول اس میں بخوبی پک جائے اور پانی نہ پھینکنا پڑے۔ اگر ہمارے ہاں کی خواتین ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دیں تو وہ روزمرہ کی خوراک میں اپنے کنبے کے افراد کے لیے غذائی اجزاء کی بچت کر کے انہیں زیادہ سے زیادہ غذائیت مہیاکر سکتی ہیں۔
Bht ehem aur qeemti article hai