nmkhan06@gmail.com نور محمد خان ، ممبئی ۔ ای میل :
قران و حدیث و اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ امت مسلمہ کو ماضی حال اور مستقبل کا کافی علم دیا گیا لیکن بقول مفکرین کی اقوال پر غور کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ امت محمدیہ ان مراحل سے گزر کر تاریکیوں سے روشنی کی بھیک مانگتی ہوئی نظر آ رہی ہے جس کی کبھی توقع نہیں کی گئی تھی! آزادی کے 74برسوں میں سیکولر سیاسی جماعتوں، مسلم لیڈران، سیاسی علمائے کرام اور مسلم تنظیموں کی قیادت میں عام مسلمانوں کے حالات کو قلم بند کرتے ہوئے جسٹس راجیندر سچر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ہندی مسلمانوں کی حالت سیاسی، سماجی معاشی تعلیمی اعتبار سے دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بدترین حالات کا ذمہ دار کون ہے؟
1857کی غدر کے بعد ایسے اشارات ظاہر ہونے لگے کہ عنقریب ہندوستان انگریزوں کی غلامی اور درندگیسے آزادی کا پرچم لہرانے والا ہے۔ ایک انگریز افسر اے او ہیوم نے 1885 میں کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھی اور آزادی کی تحریک سیاست کا شکار ہوگئی کیونکہ انگریزوں نے ایک طرف ملک کی دولت لوٹ کر برطانیہ پہنچا دیا تھا تو دوسری طرف آزادی کی جنگ میں انگریز ہلاک ہو رہے تھے ۔کہتے ہیں کہ کوئی بھی تحریک، جماعت یا تنظیموں کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں اول ملک و عوام و قوم کی فلاح وبہبود اور سالمیت و یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے ، یا ذاتی مفادات کے لئے عمل میں آتی ہیں بہر کیف اسی طرح بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں دو جماعتوں جمیعت علمائے ہند اور آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا وطن عزیز ایک طرف آزادی کے لئے جد وجہدکررہا تھا تو دوسری طرف ہندو توا کے علمبرداروں نے بابری مسجد کو نشانہ بنا کر منافرت کی لہر پیدا کی۔ 1934 میں بابری مسجد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے کتبے وغیرہ کو نقصان پہنچایا اور دیواروں پر رام نام لکھ دیا جمعیت علمائے ہند نے مداخلت کی اور انگریزی حکومت کو مسجد کے تقدس کو بحال کرنے پر مجبور کیا مسجد کا تقدس دوبارہ بحال ہوگیا ۔لیکن ہندوتوا ٹولےکی کوششیں جاری رہیں 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوگیا اور 1949 میں بابری مسجد میں بت رکھ کر مسجد کے تقدس کو دوبارہ پامال کیا گیا ۔یعنی کہ پندرہ برسوں میں ہندوتوا اتنی مظبوط ہوگئی اور آئین و قوانین کے نفاذ اتنے موثر ثابت نہیں ہوئے کہ 1885 میں انگریز افسر کی قائم کردہ کانگریس پارٹی کی جماعت جس کو مسلمانوں نے اپنے کاندھوں پر رکھ کر عروج پر پہنچایا وہی کانگریس پارٹی بے یارو مددگار ثابت ہوئی اور مسجد کو مقفل کر دیا گیا۔
آزادی کے 73برسوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، بم دھماکوں کے الزامات میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پھنسایا گیا اور مابلنچگ میں بزرگ و نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کا سلسلہ نیا نیا شروع کیا گیا ، دوسری طرف ماضی کی سیکولر حکومتیں فسادات کے بعد مسلمانوں سے ہمدردی حاصل کرنے کے لئے فسادات کی جانچ کے نام پر کمیشنوں کا قیام عمل میں لاتی رہیں لیکنفسادات کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا ،اس پر قدغن لگانے میں ناکام ثابت ہوئیں یا ان پر روک لگانے کا ان کا کوئی ارادہ ی نہیں تھا۔قابل ذکر یہ ہے کہ یو پی اے حکومت نے جب 2005 میں ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کا معائنہ کرنے کے لئے جسٹس راجیندر سچر کی قیادت میں کمیٹی کا قیام عمل میں لایا اور کمیٹی نے ملک کی مسلم آبادی والے خطوںکا سروے کیاتو پایا گیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس پارٹی 1947سے لیکر 2005تک مسلمانوں کے حالات کو جاننے کی کوشش کر رہی تھی یا یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی نہیں ہے؟ جبکہ 2004 کے پارلیمانی انتخابات میں بھاجپا نے کانگریس پر الزامات لگائے تھے کہ کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے! چنانچہ سچر کمیٹی رپورٹ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے فکر مند نہیں تھی بلکہ کانگریس پر لگے ہوئے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے سچر کمیٹی کا قیام عمل لایا گیا تھا اور یہ بتا دیا گیا کہ اگر کانگریس مسلمانوں کے لئے فکرمند ہوتی تو مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر نہ ہوتی!
سچر کمیٹی رپورٹ منظرعام پرآنے کے بعد کمیٹی نے سفارشات پیش کی تھی لیکن مرکز کی یو پی اے اور ریاستی حکومتیں سفارشات پر عمل درآمد کرنے سے قاصر رہیں ملک کے مسلمانوں نے سفارشات نافذ کرنے کے لئے احتجاج و مظاہرہ کیا لیکن تمام کوششیں ناکام ہو گئیں ملک میں چار لاکھ سے زائد وقف بورڈ کی ملکیت موجود ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی وقف بورڈ کی ملکیت پر سرکاری و غیر سرکاری قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا یہاں تک کہ کروڑوں کی املاک کو کوڑیوں کے مول فروخت کردیا گیا ، جبکہ وقف املاک کی آمدنی سے مطلقہ و بیوہ خواتین کو وظیفہ ادا کرنا، بچیوں کی شادی بیاہ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے فنڈ، اور املاک پر کالجز، یونیورسٹی، گارڈن، کھیل کود کا میدان، ہاسٹل ،شادی ہال اسپتال وغیرہ تعمیر کرنا جیسے کئیاہم کام بورڈ کے اغراض ومقاصد میں شامل ہیں، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔دوسری جانب بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے مختلف ریاستوں میں ہونے والے بم دھماکوں میں اضافہ ہوتا گیا اور بے قصور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ۔اس کے برعکس برسوں تک عدالتوں میں سماعت ہونے کے بعد زیادہ تر ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا اور عدالت نے بعض معاملات میں یہ بھی کہا کہ ایسے افسران پر قانونی کارروائی کے لئے راستے ہموار ہیں جو بے قصور افراد کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر زندگیاں برباد کر رہے ہیں ،لیکن مسلمانوں کے ٹھیکیدار کہے جانے والی سیکولر سیاسی جماعتوں، مسلم لیڈران، سیاسی علمائے کرام و مسلم تنظیمیں خاموش تماشائی ہیں ،بلکہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کے آگے سربسجود نظر آئیں۔
اگر بھارت کے سیکولر سیاسی جماعتوں، مسلم لیڈران، سیاسی علمائے کرام و مسلم تنظیموں کو عام مسلمانوں کی سالمیت کی فکر ہوتی تو ملک میں اتنے فسادات نہیں ہوتے اور نہ ہی بابری مسجد کو شہید کیا جاتا ۔مسلمانوں کی فلاح وبہبود کا دعویٰ کرنے والی سیکولر جماعتیں اور لیڈروں کو اگر عام و پسماندہ مسلمانوں کی فکر ہوتی تو وقف املاک کو فروخت نہیں کیا جا تا بلکہ اسی املاک اور اس کی آمدنی سے تعلیمی معاشی پسماندگی کے بحران کو ختم کرنے کی جانب پیش قدمی کیا جاتا لیکن افسوس ، کہ مسلمانوں کی تعداد جیلوں میں سب سے زیادہ ہے تمام قسم کےجرائم میں مسلمانوں کا فیصد زیادہ بتایا جاتاہے۔ مسلم علاقوں میں نشہ آور اشیاء کی سپلائی کی جانے لگی تاکہ مسلمانوں کی نسلیں نشہ آور اشیاء کی لت سے تباہ و برباد ہوجائے ۔یہاں تک کہ مسلم خواتین گھر کی کفالت کرنے کے لئے جسم فروشی کے دل دل میں دھنستی جا رہی ہیں ۔علاج و معالجے اور بچیوں کی شادی کے لئے مفلس مسلمانوں کا ایک طبقہ مسجدوں کے باہر ہاتھ پھیلائے ہوئے مدد کی فریاد کر رہا ہے۔ اس المناک صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کے عام مسلمانوں کی قیادت کرنے والی سیلولر سیاسی جماعتیں، مسلم لیڈران، سیاسی علمائے کرام و مسلم تنظیمیں مسلمانوں کو بھاجپا کا خوف دکھا کرخاص پارٹی کو ووٹ دلانے والے کتنے فکر مند ہیں؟
—