فرانس میں کئی ہفتوں کے احتجاج کے بعد صدر ایمانوئیل میکرون نے مظاہرین کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ان کے تمام مطالبات منظور کر لیے ہیں اور ملک میں سماجی و معاشی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ میل آن لائن کے مطابق یہ مظاہرے 17نومبر کو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تاہم گزشتہ دنوں حکومت کی طرف سے تیل پر اضافی ٹیکس کا فیصلہ واپس لینے کے باوجود مظاہرین نے دیگر مطالبات منوانے کے لیے احتجاج جاری رکھا۔ اب تک اس پرتشدد احتجاج میں 4ہزار 523لوگ گرفتار بھی کیے جا چکے ہیں۔
صدر میکرون نے ٹی وی پر نشر ہونے والی اپنی 12منٹ پر مبنی تقریر میں مظاہرین کے تمام مطالبات منظور کرتے ہوئے کم از کم تنخواہ میں 100یورو اضافے اور یکم جنوری سے 2ہزار یورو سے کم آمدنی والے افراد کو تمام ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دینے سمیت دیگر اعلانات کیے۔اس دوران انہوں نے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے ٹیکس نادہندگان اور سٹیٹ بیوروکریسی کے خلاف کریک ڈاﺅن کا عندیہ بھی دیا۔“
پرتشدد مظاہروں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ”میں تشدد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ جب معاشرے میں تشدد پھوٹتا ہے تو آزادی ختم ہو جاتی ہے۔“واضح رہے کہ صدر میکرون اس سے قبل اعلان کر چکے تھے کہ وہ مظاہرین کے آگے نہیں جھکیں گے اور ان کے دباﺅ میں آ کر پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس واپس نہیں لیا جائے گا۔ اب ان کے اس نئے اقدام کو مبصرین بڑا ’یوٹرن‘ قرار دے رہے ہیں۔