ہوائیں سرد ہو جائیں یا لہجے برف ہو جائیں
ہم اُس کی یاد کی چادر کو خود پہ تان لیتے ہیں
سُنو! درویش لوگوں کی کوئی دنیا نہیں ہوتی
ملے جو خاک رستے میں اُسی کو چھان لیتے ہیں
اگر وہ روٹھ جاتا ہے ہماری جان نکلتی ہے
یہ سانسیں جاری رکھنے کو ہم اُس کی مان لیتے ہیں