کلام: شعاعِ نور
ہوائے تازہ دریچے سے ہوکے گزری ہے
تو کیا وہ اور بھی نزدیک آگیا دل کے
عبور کرتا ہوا فاصلوں کے جنگل کو
مرے خیال کے رخسار تمتما اٹھے
دہک اٹھی ہے محبت وفا کے رستوں پر
کتاب گود میں رکھ کر تجھے میں لکھتی ہوں
ورق ورق میں تیرا عکس قید کرتی ہوں
یوں تیرے نام سے منسوب ہورہی ہوں میں
قلم مصر ہے کہ مجذوب ہورہی ہوں میں
گلے لگے تھے محبت سے ایک دوجے کے
وہ لفظ جن میں لرزتے تھے عشق سے لہجے
ترے خیال کی آہٹ سے دل دھڑکتا تھا
تھا ایک شعلہ رگ جاں میں جو بھڑکتا تھا
کسی سراب کے ہاتھوں میں آب دیکھا تھا
اور اس میں تیرتا کالا گلاب دیکھا تھا
اک التجا تھی ترے ساتھ آکے بیٹھی تھی
جو تیرے کاندھے سے لگ کر سوال کرتی تھی
اگر برا نہ لگے تو میں ایک بات کہوں
وہ جشن ہجر جہاں میزبان اک تو تھا
نجانے کون سے رستوں سے ڈھونڈ لایا تو
فراقِ یار کے کردار خیمۂ گل میں
وفائیں جن سے تھیں ہر دور میں رہیں خائف
تو میرے ایک اشارے پہ گھر اٹھا لایا
یہ جانتا بھی ہے تو ظلم کیا کما لایا
وہ زرد رنگ میں لپٹی اداس ساعت تھی
تجھے لگا تھا کہ یہ جشن کی ضرورت تھی
قبائے سرخ میں لپٹی ہوئی وہ تنہائی
کہ جس کے خون سے رنگین وصل لمحے تھے
سیاہ رنگ میں ملبوس سوگ کی ساعت
اور اس کے جوڑے میں کالے گلاب کی حسرت
تو ان کے بیچ سنوارے گا ہجر کی دلہن
بنا کے لایا ہے زنجیر کے یہ دو کنگن
میں پوچھتی ہوں ملا صرف کیوں مرا آنگن
مری کلائی پہ کالا گلاب باندھے گا
یہاں سے لے کے وہاں تک سراب باندھے گا
خزاں کے روپ کو کیسے بتا سنوارے گا
صدا بنے گا مری یا مجھے پکارے گا
یہ جشنِ ہجر کی تحقیر ہے یا پھر تعظیم
کرے گا جانے اسیری کی کس طرح تجسیم
اے کاش مجھ پہ قیامت نہ ٹوٹتی ایسے
یہ قرعہ کاش نکلتا نہ نام کا میرے
قبائے سرخ کا مفہوم جانتا بھی ہے
تو جانتا بھی ہے کالے گلاب کا مطلب
لہو میں بھیگتے ارماں کی آخری ہچکی
کبھی تو پونچھتا وحشت کی آنکھ سے آنسو
کبھی تو دشت کے سینے میں پیر تو رکھتا
کبھی تو پوچھ اماوس سے چاند کی حسرت
جو آنکھ بند کئے پوجتی رہی اس کو
جو اس کے بطن میں دن رات مرتا رہتا تھا
کہاں سے دان کرے گا خوشی
کے وہ لمحے
جو اعتراف کے سینے سے لگ کے رو لیتے
جو جشن ہجر کی سنگت میں تن بھگو لیتے
نہ پوچھ مجھ سے یہ دیوار کس نے کھینچی ہے
جو ڈھونڈ لایا ہے کردار اس نے کھینچی ہے
اور آج کتنے دنوں بعد حجرۂ دل میں
تری صدا سے ملی ہے مری سماعت یہ
وہ تیرے عکس میں رنگِ ملال بھرتے ہوئے
لپٹ رہی ہے وہ مجھ سے سوال کرتے ہوئے
مہک حنا کی ہتھیلی میں گھل گئی کیسے
یہ بند کھڑکی اچانک ہی کھل گئی کیسے
ہوائے تازہ تیرا خط تھما گئی مجھ کو
میں جس سے ڈرتی تھی وہ سچ سنا گئی مجھ کو
سنوارتی ہے تخیل کی اس بلندی کو
کہ جس کو چھوکے مرے جسم و جاں مہک اٹھے
قبائے سرخ میں کتنے گلاب کھل اٹھے
تو پوچھتا ہے مگر ان گنت گلابوں کو
میں گن سکی ہی کہاں کس طرح بتاؤں تجھے
یہ عشق باعث اعزاز ہوگیا کیسے
یہ راہ داریاں دل کی چمک اٹھیں
کیسے
قبائے زرد نے بدلا ہو پیرہن جیسے
وصال عشق کی بانہوں میں مسکرانے لگا
ترا خیال مرے دل کو گدگدانے لگا
ہوائے تازہ گزرتی یے راز داری سے
لپٹ رہی ہے تخیل کی بیقراری سے
وہ کہہ رہی ہے بہت دور سے وہ آئی ہے
وہ تیرے جسم کی خوشبو کو کھینچ لائی ہے
وہ میرے واسطے تازہ گلاب لائی ہے
گلاب جس میں تیرا روپ
کھل رہا ہے یوں
کہ جیسے روشنی دل کا طواف کرتی ہے
کہ جیسے کوئی دعا اعتراف کرتی ہے