ہوسٹس

selected by
Tariq Ashraf
ہوسٹس
آتی جاتی گاڑیوں کے شور، ملتے بچھڑتے مسافروں کی دعائیں، اور لاتعداد انسانوں کی بهنبهناہٹ نے لاری اڈے کی رات کو دن میں بدل دیا تھا۔ انسانوں کے اس بے ہنگم ہجوم میں کاندھے پر بیگ لٹکائے میں بهی ٹکٹ کاؤنٹر سے فارغ ہو کر بس کے اسلام آباد نکلنے کا منتظر تھا۔ جس بس کا ٹکٹ میری جیب میں تھا وہ میرے سامنے کھڑی تھی ، دیگر سواریاں بھی سامان لئے ارد گرد جمع ہو رہی تهیں۔
بس کی ہوسٹس اور ڈرائیور، کمپنی یونیفارم میں آتے دکھائی دیئے۔ ہوسٹس کی آنکھوں میں حیا نظر آئی اور چہرے پر خلوص۔ ڈرائیور کے ساتھ مسکرا کر کوئی بات کرتے ہوئے وہ بس کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کے وجود میں کچھ ایسی کشش تھی کہ جس نے میری نظروں کو اپنے ساتھ باندھ لیا ۔ مجھے اس کی مسکان بے حد اچھی لگ رہی تھی۔
گیٹ کھلنے کے بعد عملے نے اسے کچھ سامان دیا جو سفر کے دوران استعمال ہونا تھا۔ سامان رکھ کر وه گیٹ کے اندر کھڑی ہوگئی اور سوار ہونے والوں کے فردا ًفرداً ٹکٹ چیک کرنے لگی۔ بس کے دروازے والی سائڈ پر ایک کهسکتی سی قطار بن گئی۔ جلدی میں ایک جوڑا مجھ سے پہلے قطار میں گھس گیا۔ ایک خاتون تھیں اور آگے شاید ان کا شوہرً تین چار برس کے سوتے بچے کو کاندهے سے لگائے ہوئے تھا ۔ میری نظر ادھر ادھر گھوم کر دوبارہ اس ہوسٹس کی مسکان دیکھنے کو اس کے چہرے پر پلٹ آئی۔ جیسے ہی کاندھے پر بچے کو سلائے وہ شخص ہوسٹس کے سامنے آیا، تو دفعتاً وه مسکان میرے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی۔
“یہ کیا تھا۔۔۔؟ ” میرے ذہن نے فوراً اس ردعمل کو پکڑلیا۔ کچھ عجیب سا لگا، جیسے وہ اس شخص کو جانتی ہو اور دیکھتے ہی اس کے گنبد یاداشت میں بیک وقت پہچان کی کوئی آذان گونجی ہو۔
“ان دونوں کے بیچ کیا ہے۔۔۔؟ ” میرے اندر ایک تجسس نے جنم لیا۔
مسافر اب بس میں سوار ہوچکے تھے۔ میری ساتھ والی سیٹ پر ایک چھچھورا سا لڑکا آبیٹھا۔ پیچھے دو عمر رسیدہ خواتین، آگے ایک نک چڑهی عورت اور ساتھ اسکا بچہ اور میرے دائیں جانب برابر کی سیٹ پر وہی شخص گود میں سویا ہوا بچہ لٹائے اپنی بیوی کے ساتھ سپاٹ چہرہ لئے بیٹھا تھا۔ میں نے بارہا ہوسٹس کے چہرے پر اس مسکان کو کھوجنا چاہا جو اچانک اس شخص کو دیکھتے ہی گم ہو گئی تھی۔ میرے ذہن میں کہانیاں کروٹ لینے لگیں۔
“ہو نہ ہو۔۔۔ یہ ہوسٹس کا کوئی جاننے والا ہے۔ یا ہوسکتا ہے کسی گذشتہ سفر کے دوران ان دونوں میں کوئی بدمزگی ہوگئی ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس شخص نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ ایسی حرکت کی ہو جوہوسٹس کو بری لگی ہو۔ کچھ بهی تها مگر تها ضرور۔۔۔” اس طرح کے خیالات ایک ایک کر کے میرے ذہن کی سیڑهیوں پر اوپر نیچے دوڑنے لگے۔
میری نظر ایک بار پھر دائیں طرف بچہ گود میں لئے شخص کی طرف گئی، عمر یہی کوئی تیس بتیس کی رہی ہوگی، قد کاٹھ بھی درست تھا شکل و صورت بھی مناسب تھی، لباس میں سلجهاو تھا۔ میرے اندر بے چینی تهی۔ حلانکہ ان دونوں کے درمیان کچھ بھی رہا ہو یہ انکا ذاتی معاملہ تھا۔ مجھے بھی ان کے ذاتی معاملات سے کچھ لینا دینا نہ تھا، مجھے تو صرف اس مسکان کے یُوں اچانک غائب ہو جانے میں دلچسپی تهی۔سو میرے اندرجواز بے جواز تجسس کے کئی نیون سائن بڑی تیزی سے جل بجھ رہے تهے۔ اتنے میں میرے پیچھے بیٹھی خواتین کے درمیان ساس بہو کا سوپ سیریل شروع ہو چکا تھا۔
“پال پوس کر بڑا کیا، بیاہ کر دیا۔ اب کبھی اس نے پلٹ کر خبر نہیں لی۔ لوگ بہو گھر میں لاتے ہیں سُکھ دیکھنے کے لیے، میں نے تو اپنا بیٹا کھو دیا۔”
دوسری بولی “میرے والے کا بھی یہی حال ہے۔ دو دو دن شکل نظر نہیں آتی، کوئی بات کر لو تو ہوں ہاں میں جواب دیتا ہے، غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے، کوئی اس کی ملکہ کے بارے میں بات تو کر کے دکھائے۔”
میں مسکرادیا اور اپنی جیب سے موبائل نکال کر وقت دیکھا 12 بجنے میں ابھی 5 منٹ باقی تھے۔
“ایکسکیوز می میڈم” ہوسٹس مجھ سے اگلی سیٹ پر بیٹھی خاتون سے مخاطب تھی۔
“آپ بچے کو گود میں کر لیجیئے، ساتھ والی سیٹ فری نہیں ہے۔”
“فری نہیں ہے؟ پیچھے اتنی سیٹیں پڑی ہیں، سوار ی وہاں بیٹھ سکتی ہے۔ “عورت کی آواز بلند ہوئی۔
“میڈم آپ پیسنجر سے بات کر لیجیئے گا اگر انھیں اعتراض نہ ہو تو آپ یہ سیٹ استعمال کر سکتی ہیں، ادروائز مجھے پرمشن دینے کا اختیار نہیں۔ ویری سوری۔” ہوسٹس نے بہت نرم لہجے میں کہا۔
“پرمشن۔۔۔؟ تم کون ہوتی ہو پرمشن دینے والی؟ اور بات کرنے کی تمیز بھی نهیں؟ پسینجر سے ایسے بات کی جاتی ہے؟” اس خاتون نے بات سمجھے بغیر آسمان سر پر اٹھا لیا اور ہوسٹس پر چڑھائی کر دی۔
وہ مسلسل غیر مہذب لہجے میں بولے جا رہی تھی اور ہوسٹس خاموش کھڑی اس کی باتیں سن رہی تھی۔ کچھ دیر بعد نظرانداز کئے جانے پر خاتون خاموش ھو گئی۔ اس چپکلش کے دوران میں هوسٹس نے دوتین بار دائیں جانب والے شخص کی طرف کن اکھیوں سے دیکھا جو آنکھیں بند کیے اپنی سیٹ پر نیم دراز تھا۔ دلوں میں کیا چل رہا تھا کچھ نهیں معلوم ، دلوں کی دنیا سے بے نیاز ١١٠ کی رفتار سے بس اپنے سفر کی منازل طے کر رہی تھی۔
“ہوسٹس نے اپنی بے عزتی کے دوران اس شخص کو کیوں دیکھا؟ اور پھر ایسے کیوں دیکھا؟ کوئی تو بات ہے.” میرے خیالات کی ٹرین نے ایک وسل بجایا۔
“ہوسکتا ہے یہ اس کا کوئی جاننے والا ہو؟ نہیں! جاننے والا ہوتا تو سلام دعا ہو جاتی۔ یا پھر کوئی گلی محلے سے ہوگا؟ عورت کا غیروں کو ‘سرو’ کرنا، جی حضوریاں کرنا، ایک شہر سے دوسرے شہر جانا۔ وہ بھی اجنبی لوگوں کے درمیان، رات دن کا خیال کیے بغیر، لوگوں کو معیوب لگتا ہے۔ سماج بھوک کو نہیں سمجھتا، افلاس کو نہیں سمجھتا، وہ نہیں جانتا کہ ایک طوائف ہے تو کیوں ہے، بس وہ ہے اور دنیا کی ایک غلاظت ہے۔ کوئی چور ہے تو کیوں ہے۔ ہوسٹس ہونے کو بھی اچھا نهیں سمجھا جاتا، عزت داروں کو اپنی بیٹیاں اس طرف بھیجتے احساس ِندامت آ گهیرتا ہے۔ اور جو کسی مجبوری کے تحت اجازت دے دیتے ہیں وہ اپنی ہی نظر میں خود کو شرمنده محسوس کرتے ہیں۔ شاید کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہوگا۔ دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے۔۔۔”
میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ پیچھے بیٹھی خواتین میں سے ایک اپنے ساتھ والی سے دوبارہ باتیں کرنے لگی” نجانے کیا ہوگیا ہے۔ کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا، وہ تو اپنے باپ کے ہارٹ اٹیک کا سن کر بھی نہیں آیا۔ ایک فون ہی کر لیتا تو دل کو تھوڑی تسلی مل جاتی۔” اس خاتون کی آواز گھٹ گئی۔ دوسری جو اس کے ساتھ بیٹھی تھیں اس نے حوصلہ دیا۔ “تو یوںہی رو رو کر پاگل ہو جائے گی ۔ اسکو تو ذره برابر پرواه نہیں۔”
“نہ ہو پراوہ مگر میں تو ماں ہوں میرا کلیجہ تو پھٹتا ہی ہے۔ مہینوں سے اپنے بیٹے کا چہرہ نہیں دیکھا۔” اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔
میں نے اس عورت کے لہجے کا کرب محسوس کیا۔ اور میری سوچ کا رخ اس بار رشتوں کی طرف مڑگیا۔
“ہم رشتوں کو کیسے گنوا دیتے ہیں؟ “میں نے سوچا۔ “حالانکہ یہ تو ہماری پوری زندگی کا حاصل ہوتے ہیں۔ تمام عمر کبھی انا تو کبھی کسی چیز کے نشے میں ہم یہاں وہاں بھٹکتے رہتے ہیں۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب آنکھیں صرف اور صرف اپنوں کو تلاش کررہی ہوتی ہیں۔”
میرے خیالات ٹرین کے ڈبوں کی طرح آپس میں جڑ جڑ کر تیار کھڑے تھے، کس سمت جانا تھا کچھ طے نہیں ہو پا رہا تھا۔ توجہ پھر ہوسٹس کی طرف مبذول ہوئی۔
وہ ایک ٹرے میں رفریشمنٹ کے ڈبے رکھے مسافروں کو بانٹتی بانٹتی مجھ تک آپہنچی۔ میں نے اپنا ڈبہ اٹھایا اور میرے ساتھ بیٹھے لڑکے نے بھی ہوسٹس کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر ایک ڈبہ اٹھا لیا۔ ہوسٹس دائیں طرف والی سیٹ کیطرف مڑی اور وہاں کچھ لمحے خاموش کھڑی رہی۔ پھر مدھم سی آواز میں بولی “ایکسکیوز می سر۔”
نیم دراز شخص نے اپنی آنکھیں کھولیں، ہوسٹس کی طرف دیکھا اور دوبارہ بند کر لیں۔ ساتھ بیٹھی بیوی نے بھی گردن گھما کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور دوبارہ ونڈو سے باہر دھند میں لپٹی چاندنی کو دیکهنے لگی
ہوسٹس کچھ دیر رکی رہی۔ جب ان دونوں نے ڈبے نہ اٹھا ئے تو آگے بڑھ گئی۔
پھر وہی آوارہ سوچ۔۔۔ “اس طرح نظرانداز کرنے کا کیا مقصد ہے؟” یہ ٹرین کا دوسرا وسل تھا۔
کچھ دیر فضولیات سوچنے کے بعد میں آنکھیں بند کیے سونے کی کوشش میں تھا کہ ہوسٹس کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔
“جی سر” وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر میرے ساتھ بیٹھے اس چھچھورے لڑکے کے سوال کی منتظر تھی۔
“آپ کے پاس نئے سانگز نہیں ہیں؟”
“سر یہی ہیں ۔”
“یہ تو بہت پرانے ہیں، گھسے پٹے سے”
“سر کچھ اور چاہیئے آپکو؟”
“”ہاں چاہیئے تو ہے۔۔۔ مگر آپ کے پاس ہے ہی نہیں۔ ” اس لڑکے کی آنکھوں میں شرارت تھی، وہ دوبارہ بولا ” اگر میں اپنی یو۔ایس ۔بی دوں تو آپ وہ گانے چلاسکتی ہیں؟
“”سوری سر۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ” ہوسٹس نے نرم سنجیدگی سے مختصر سا جواب دیا ۔ مجھے اس چھچھورے کی بات انتہائی بے تکی لگی، بھئی من پسند گانے سننے ہیں تو اپنے سسٹم میں ساتھ رکهو ہوسٹس کی جگہ میں ہوتا تو یہی کہتا، مگر وہ تو نوکر ی کر رہی تھی۔ وہ کیسے کہہ سکتی تھی؟
“کیسا نہیں ہوتا؟” اس چھچھورے نے یہ جملہ بڑے بھونڈے اور جارحانہ اندازمیں کہا۔ ہوسٹس نے واپس مڑتے مڑتے دائیں سیٹ والے شخص کو دیکھا، میری بھی نظر اس کی طرف گئی تو وہ اس چھچھورے لڑکے کو گھور رہا تھا۔
بس اس بار میرے خیالات نے تیسرا اور آخری وسل بجایا اور ٹرین کو سمت مل گئی۔
“یقیناً ان میں محبت رہی ہوگی۔ اس شخص کی نظر میں جو تلخی تھی وہ چیخ چیخ کر پکار رہی تھی، کہ کمینے یہ بکواس بند کرو۔خبردار اگر ایک لفظ بھی فضول بولا تو۔۔۔ ایسی وحشت تو صرف عاشق کی آنکھوں میں دیکھنے کو ملتی۔
“ہوا کچھ یوں ہوگا کہ محلے یا کالج میں یہ اکٹهے ہوں گے، اور دونوں کے درمیان عاشقی چلی ہوگی، لڑکی کی کوئی مجبوری ہوگی، شادی نہ کرنے کی کوئی وجہ رہی ہوگی۔ اور پھر شکستہ دل لڑکے نےانتقاماً کسی اور سے شادی کر لی۔ مگر اس کے اندر اب بھی ایک خلش موجود ہے، وہ اب بھی ناراض ہے، بجھا بجھا سا ہے۔ مگر ہوسٹس کی انسلٹ ہوتے دیکھنا بھی اسے مشکل لگا ہے۔ اور بیوی یہ سب جانتی ہے اسی لیے وہ ہوسٹس کو نظرانداز کرتی رہی۔”
“کچھ تو ہے۔۔۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے۔ ڈبے نہ اٹھانا، اور پھر اسکی بیوی کا گھورنا۔ بیوی سارے معاملے سے واقف ضرور ہے۔ ان دونوں کے معاشقے کے چرچے ہوئے ہوں گے۔ بدنامی اور باتیں چلی ہوں گی۔ ایسی خوش اخلاق لڑکی بے وفا تو نہیں ہو سکتی، یقیناً کہیں نہ کہیں کچھ کمی رہی ہوگی۔”
میرے دماغ میں جیسے فلم کا سکرپٹ بنتا جا رہا تھا اور میں ان دونوں کے رویوں سے مزید کڑیاں جوڑتا کسی بامعنی اختتام تک پہنچنا چاه رہا تھا۔ یہ کیسی فضول سوچ تھی، میں دل میں خود پر ہنسا۔
دوگھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ ہیڈلائٹس کی روشنی میں کلومیٹرز کم ہو رہے تهے۔ شاید پچھلی سیٹوں پر سے کسی نے کال بیل بجائی، ہوسٹس اٹھ کر چلی آ رہی تھی۔ اس کی نظریں اب بھی اسی شخص پر تھیں جو گود میں بچہ لیے، آنکھیں موندے سیٹ پر نیم دراز تها۔ گود میں لیٹے بچے نے انگڑائی لے کر آنکھیں کهولیں، سامنے آتی ہوئی ہوسٹس کو غور سے دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔ وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔ اوراپنے ایک ہاتھ کی انگلی ہوسٹس کی طرف بڑھائی۔ دوسرے ہاتھ سے باپ کے چہرے کو متوجہ کرنے کیلئے چھوا ۔۔۔ بچے کی پُر جوش آواز خاموش بس میں سنائی دی۔۔۔ “بابا۔۔۔ نینی پھپھّو۔۔۔” میں لرز کر رہ گیا۔۔۔ خیالات کی ٹرین اچانک الٹ گئی، ڈبے لڑھکتے نیچے کہیں کھائیوں میں جا گرے
میں نے ہوسٹس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر وہی خوبصورت مسکان لوٹ آئی تھی، مگر اگلے لمحے غائب بھی ہوگئی جب اس بچے کی ماں نے بچے کے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا “چُپ بدتمیز۔۔۔” ماں کی آنکھوں میں غضب دیکھ کر بچہ سہم گیا۔۔۔ ہوسٹس کے قدم کچھ پل کے لیے وہیں رک گئے۔ انجان سناٹے میں جذبوں کی چیخ سنائی دی۔ فاختاوں کے پر ٹوٹ کر گر پڑے۔۔۔ فاصلے اور بڑھ گئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں