رپورٹ نمائندہء خصوصی اردو فلک ڈاٹ نیٹ
قرآن حکیم میں تین قسم کی نیک اور بد خواتین کا ذکر آیا ہے۔ عورت جو چاہے کر سکتی ہے۔خدیجہ سکندر
ہلاکو خان کے حملے کے بعد وہاں کی مسلمان غلام خواتین کی وجہ سے اسلام پھیلا۔۔سیّدہ ثمینہ امتیاز
ہاں یہ خواتین کی مرضی ہے کہ انکا جسم جہنم میں جائے یا جنت میں۔۔معلمہ
،፣ایڈیٹر ساجدہ پروین
اتوار کی سہ پہر ہولملیا کے اسکول میں ہونے والی خواتین کی تقریب جس کی میزبانی شاہدہ بی بی نے کی اور منتظم اعلیٰ معلمہ اسلامک کلچر سینٹر اور اردو فلک ڈاٹنیٹ اسلامی صفحہ کی ایڈیٹر محترمہ ساجدہ پروین صاحبہ تھیں میں مقامی خواتین نے حصہ لیا۔جبکہ انٹر کلچرل سینٹر اہم خواتین نے اسلام کی روشنی میں خواتین کے کردار،انکے فرائض اور حقوق کو دلچسپ انداز میں بیان کیا۔
تقریب میں سب سے پہلے خدیجہ سکندر نے قرآن کے حوالے سے بتایا کہ قرآن میں تین طرح کی خواتین کا ذکر ہے جو کہ مسلمان اور کار دونوں طرح کی عورتوں کے لیے مثال ہیں۔حضرت آسیہ جو کہ فرعون کی چہیتی بیوی تھیں انہوں نے جیسے ہی اسلام قبول کیا اس نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے فرعون انہیں مجمع میں اور لوگوں کے سامنے طعنہ دیتا تھا۔یہاں تک کہ اس کے ظلم سہتے سہتے وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں مگر اسلام پر ڈٹی رہیں۔
دوسری مثال والدہ حضرت عیسیٰ حضرت مریم ہیں جنہوں نے ہزار مصیبتوں کے باوجود اپنے قدم وں میں نعزش نہ آنے دی۔انکی زندگیوں کے مطالعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں عورتوں کو حق پر ڈٹے رہنا چاہیے اور ایسی عورتیں ہی اپنے بچوں کو مضبوط کردار کی تربیت دیتی ہیں۔
جبکہ بدترین عورتوں میں حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویاں تھیں جو کہ اپنے شوہروں کے خلاف جاسوسی کیا کرتی تھیں۔
عورت تسلیم و رضا کا پیکر ہے وہ جو چاہے کر سکتی ہے اگر صبر و برداشت سے کام نہ لے تو وہ پورے گھر کا سکون برباد کر سکتی ہے۔پھر عورت سے تو اللہ تعلیٰ نے معاشرے کی تکمیل کی ہیے اسے مکمل کیا ہے یہ بات عورتوں کے لیے باعث فخر ہونی چاہیے۔خدیجہ سکندر نے خواتین کے دس حقوق بیان کیے جو کہ اسلام نے انہیں دیے ہیں۔ان میں سے ایک حق یہ بھی تھا کہ اللہ تبارک نے باپ اور شوہر دونوں کے مال میں سے عورتوں کا حق رکھا تھا لیکن عورت کے مال میں عورت کا حق نہیں رکھا۔
مسلان مردوں نے خواتین سے مشورے کیے اور آج تک مرد ایک عظیم خاتون کے نقش قدم پر چلتے ہیں مگر کسی مرد نے اعتراض نہیں کیا۔۔۔
محترمہ سیّدہ ثمینہ امتیاز صاحبہ نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآنی آئیت سے کرنے کے بعد مسلمان عورتوں کے لیے حضرت خدیجہ کی زندگی،طرز عمل اور کردار اورشخصیت کو بے مثال قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت کے عرب معاشرے میں جبکہ عورت کو کوئی حیثیت حاصل نہیں تھی وہ عرب کی متمول با اثر اور تاجرخاتون کے طورپر پہچانی جاتی تھیں۔انہوں نے عورت ہو کر اپنی مرضی سے دو ایسے فیصلے کیے جن میں کوئی مرد شامل نہیں تھا۔
ٓٓانہوں نے اپنا سامان تجارت فروخت کے لیے نبی پاک کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ حضرت خدیجہؑ
نے دوسرا اہم فیصلہ حضرت محمد ﷺسے شادی کا کیا۔یہ دونوں فیصلے خود مختار رہ کر کیے ان سے کسی نے زبردستی یہ فیصلہ نہیں کروایا تھا۔اس کے بعد جب نبی پاک کو نبوت ملی انہوں نے اس مشکل گھڑی میں اپنے کسی چچا یا دست کو راز دار نہیں بنایا بلکہ ایک عورت حضرت خدیجہ کو رازدار بنایا یہ۔ ہے ایک عورت کی اہمیت۔اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کی امیر ترین خاتون جن کے محل میں نوکروں چاکروں کی کمی نہ تھی خود اپنے شوہر کو غار حراء میں کھانا پہنچانے جایا کرتی تھیں۔وہ یہ کام کسی غلام سے بھی کروا سکتی تھیں لیکن انہوں نے یہ خود کیا۔
پھر نبی پاک کی زوجہ حضرت بی بی عائشہ جو نبی پاک کی وفات کے بعد چالیس برس تک زندہ رہیں۔جب بھی کوئی مسلہء درپیش ہوتا صحابہ کرام ان سے مشورہ کرنے جاتے۔وہ یہ نہیں کتے تھے کہ وہ تو ایک خاتون ہیں تو ہم ان سے کیوں پوچھیں۔بی بی عائشہ کا تعلق مکہّ کے سب سے ذیادہ تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔اس لیے جب بھی کوئی اہم بات ہوتی وہ اسے لکھ لیا کرتی تھیں۔اس طرح ان کی وجہ سے بہت سے مستند احادیث اور روایات آج ہم تک ایک خاتون کی وجہ سے پہنچیں۔
حج اور عمرہ کے موقعہ پر سب مردواور خواتین جب تک حضرت بی بی حاجرہ کے بنائے ہوئے راستے پہ سعی نہ کر لیں حج مکمل نہیں ہوتا۔ وہ بھی تو ایک خاتون کے نقش قدم تھے جن پر سب مرد بھی چلتے ہیں اس پر تو آج تک کسی مرد نے اعتراض نہیں کیا کہ میں کیوں چلوں اس راستے پہ۔آپ دیکھیں حضرت بی بی حاجرہ اپنے شوہر حضرت ابراہیم کے کہنے پہ خدا کا حکم سمجھ کر تن تنہا ایک چھوٹے بچے کے ساتھ جنگل بیا بان میں رہنے کے لیے تیار ہو گئیں۔ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ شوہر سے ناراض ہو جاتیں کہ ہائے میرے شوہر نے تو مجھے گھر بھی بنا کر نہیں دیا۔اور یہ کہ دیکھو اسماعیل تمہارے ابا ہم دونوں کو اکیلا چھوڑ گئے۔بلکہ انہوں نے نہائیت استقامت سے اپنا وقت اسلام پہ چل کر زارا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج رہتی دنیا تک وہ ایک عظیم مثال بن گئی ہیں۔پھر انہوں نے حضرت اسماعیل کی تربیت اس طرح کی کہ وہ اپنے باپ کا نہ صرف احترام کرتے تھے بلکہ انکی باتوں اور خوابوں پہ بھی عمل کرتے تھے۔اسی لیے تو جب انہوں نے اپنا خواب اپنے بیٹے کو سنایا وہ فوراً قربان ہونے کے لیے راضی ہو گئے۔
پھر حضرت عمر اپنی بہن کی وجہ سے مسلمان ہوئے حضرتا ا بو ماجہ اپنی پھپھی کے کہنے پر مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے اور ایمان لے آئے۔جبکہ مسلمانوں پر حملے کے بعد ہلاکو خان نے جن عورتوں کو غلام بنا لیا تھا ان عورتوں کی وجہ سے وہ لوگ مسلمان ہوئے۔اس لیے عورتوں کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہے بے شک وہ مردسے ایک درجہ کم ہے۔قرآن میں اللہ تبارک نے جب بھی احکامات بھیجے وہ مرد عورتوں دونوں کے لے ہیں۔
ہاں یہ عورتیں ٹھیک کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی۔
اس کے بعد معلمہ ساجدہ پر وین اسلامک کلچرل سینٹر اور
اردو فلک ڈاٹنیٹ اسلامی صفحہ کی ایڈیٹر
نے گفتگو کی انہوں نے کہا کہ مغرب زدہ عورتوں کا یہ نعرہ میرا جسم میری مرضی درست ہے کیونکہ یہ واقعی انہی کی مرضی ہے کہ وہ ایسے کام کریں کہ انکا جسم جہنم میں جائے یا جنت میں۔جب یہ جسم اللہ کے حضورپیش ہو گا اس کا یک ایک اعضاء گواہی دے گا تب انسان یہ شکوہ کرے گا کہ تم میرے خلاف ہی گواہی دیتے ہو۔پھر جب اسے سزا ملے گی تو وہ اعضائانسان سے کہیں گے کہ تم نے مجھے سزا دلوائی اور مجھے پھنسوا دیا۔
انہوں نے کہا کہ آج کی محفل سے ہم عورتوں کو نہ صرف اپنی اہمیت کا احساس ہوا ہے بلکہ ہمارے اندر کا جذبہ بھی جاگا ہے اور وحانی طور پہ بھی مضبوطی ملی ہے۔
سب سے آخرمیں اردو فلک ڈاٹ نیٹ کی چیف ایڈیٹرشازیہ عندلیب نے گفتگو کی اور اس محفل کو منعقد کرنے پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میڈیا میں وہ عورتیں جو کسی طرح بھی مسلمان عورتوں کی نمائندگی نہیں کرتیں وہ می ٹو اور میری مرضی میرا جسم کے نعرے لگا رہی ہیں۔اگر ایک عورت اپنے بچوں کی تربیت اسلامی خطوط پہ کرے وہ اور اس کے بچے با کردار ہو ایسے جلوسوں کی کبھی نوبت ہی نہ آئے۔
تقریب کے اختتام پر مہمانوں کی تواضع چائے اور اس کے لوازمات کے ساتھ کی گئی۔