اعجاز شاہین
غزل
کیا عُمر بسر ،ایسے ہی کرنے کے لئے ہے
یا تاب و تبِ عشق میں مرنے کے لئے ہے
کس کس کے لئے اور کہاں تک میں سمیٹوں
مٹّی تو کسی طور بکھرنے کے لئے ہے
آرائش و تجمیل کے سامان بہم ہیں
آمادہ مگر کون سنورنے کے لئے ہے
آپ اپنے سے بھی صاف مکر جاتے ہیں یعنی
جو بات ہے اپنی ،وہ مکرنے کے لئے ہے
تعبیر کا اک خوف، اُڑانے کے لئے نیند
اک قافلۂ خواب اُترنے کے لئے ہے
گزران ہے عشّاق کی جس راہ گزر میں
وہ رہ تو، قیامت کے گزرنے کے لئے ہے