” یا رسول اللہ ﷺاس کا باپ آجائے تو اس سے پوچھئے کہ ..“وہ معجزہ جب ایک نافرمان بیٹا اپنے والد کی شکایت رسول خداﷺ کے پاس لیکر آیاتوحضرت جبرئیلؑ نے اصل معاملہ تک پہنچنے کے لئے آپ ﷺ کی رہ نمائی فرمائی۔

” یا رسول اللہ ﷺاس کا باپ آجائے تو اس سے پوچھئے کہ ..“وہ معجزہ جب ایک نافرمان بیٹا اپنے والد کی شکایت رسول خداﷺ کے پاس لیکر آیاتوحضرت جبرئیلؑ نے اصل معاملہ تک پہنچنے کے لئے آپ ﷺ کی رہ نمائی فرمائی۔

ہر زمانے میں ایسی نافرمان اور والدین کی گستاخ اولاد موجود رہی ہے جو اپنے پالنے والوں کو بوجھ سمجھنے لگتی ہے ۔فی زمانہ تو لوگ اپنے والدین کے انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک حرکات کرتے ہیں۔حضر ت امام قرطبیؒ نے ایسی اولاد جو ماں باپ کو تکلیف دیتی اور اپنا مال ان پر خرچ کرنا بوجھ سمجھتی ہے،اسے اللہ کے رسولﷺ کا یہ واقعہ سنایاتھا جس کا انہوں نے اپنی کتاب میں مفصل ذکر کیا ہے ۔انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا …. اور شکایت کی کہ میرے باپ نے میرا مال لے لیا ہے ….آپﷺ نے فرمایا ” اپنے والد کو بلا کر لاﺅ “اسی وقت حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ سے کہا ” جب اس کا باپ آجائے تو اس سے پوچھئے کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں اور خود اس کے کانوں نے بھی ان کو نہیں سنا “

جب یہ شخص اپنے والد کو لے کر پہنچا تو آپﷺ نے اس کے والد سے کہا” کیا بات ہے؟ آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کر تاہے …. کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مال چھین لیں “

والد نے عرض کیا ” آپﷺ اسی سے یہ سوال فرمائیں کہ میں اس کی پھوپھی …. خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہاں خرچ کرتاہوں ؟“

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اِیہُ“ (جس کا مطلب یہ تھا کہ بس حقیقت معلوم ہوگئی اب اور کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ) ….

اس کے بعد سرکار دوجہاں ﷺ نے اس کے والد سے دریافت کیا ” اچھا یہ کہو کہ وہ کلمات کیا ہیں جن کو ابھی تک خود تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا “

اس شخص نے عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺ ! ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر ہمارا ایمان اور یقین بڑھا دیتے ہیں،یہ معجزہ ہے کہ آپﷺ کو یہ خبر ہوگئی ہے کہ میں دل میں کیا کلمات کہتا ہوں “پھر اس نے عرض کیا ” یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے چند اشعار دل میں کہے تھے جن کو میرے کانوں نے بھی نہیں سنا “

آپﷺ نے فرمایا کہ : وہ ہمیں سناﺅ….

اس وقت اس نے جو اشعار سنائے ان کا ترجمہ یوں ہے

”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے کے بعد بھی تمہاری ذمہ داری اٹھائی …. تمہارا سب کھانا پینا میری ہی کمائی سے تھا….“

”جب کسی رات میں تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے تمام رات تمہاری بیماری کے سبب بیداری اور بے قراری میں گزاری ….“

”گویا کہ تمہاری بیماری مجھے ہی لگی ہے ….تمہیں نہیں ….جس کی وجہ سے تمام شب روتا رہا ….“

”میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے پہلے پیچھے نہیں ہوسکتی….“

”پھر جب تم اس عمر اور اس حد تک پہنچ گئے جس کی میں تمنا کیا کرتا تھا ….“

”تو تم نے میرا بدلہ سختی اور سخت کلامی بنا دیا گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام کر رہے ہو “

”کاش اگر تم سے میرے باپ ہونے کا حق ادا نہیں ہوسکتا تو کم از کم ایسا ہی کرلیتے جیسا کہ ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے….“

”تو کم از کم مجھے پڑوسی کا حق تو دیا ہوتا اور اور خود میرے ہی مال میں میرے حق میں بخل سے کام نہ لیا ہوتا ….“

رسول کریم ﷺ نے یہ اشعار سننے کے بعد بیٹے کا گریبان پکڑ لیا اور فرمایا” جاتو بھی اور تیرا مال بھی سب تیرے باپ کا ہے“

اپنا تبصرہ لکھیں