یر غمال بوڑھے وا لدین۔
عین الیقین
عینی نیاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثمینہ آج کل نہایت مصروف تھی اس کا گھر پنچا یت کا گڑھ بناہوا تھا اس کا ایک قدم بڑے جیٹھ کے گھر تو کبھی دوسرا قدم چھوٹے جیٹھ کے گھر کبھی ایک پا ئو ں بڑی آپا(نند) کے ہاں تو کبھی دوسر اپا ئوںبا جی (نند )کے گھر چکر کا ٹنے میں گزر جا تا تھا وہ اپنے مثبت مزاج کے باعث فریقوں کے درمیا ن رابطہ کا زر یعہ یا گھن چکر بنی ہو ئی تھی ۔بات دراصل یہ تھی کہ ثمینہ کے بڑے جیٹھ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی میں را زی خوشی سب بہن بھا ئیوں کو شریک رکھنا چا ہتے تھے لیکن! ان کی تمنا کسی طرح پوری ہو تی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ بڑی با جی نے شادی میں شرکت کا با یکا ٹ کر دیا مو قف ان کا بھی درست تھا ا نھیں غلہ تھا کہ جب انھوں نے اپنی پہلی بیٹی کی شادی کی تو بڑے بھا ئی صا حب ایک معمولی سی با ت کو لے کر اتنے نا راض ہوئے کہ شادی میں شریک نہ ہو ئے وہ خود تو شریک نہ ہو ئے نہ سہی،اپنے ساتھ بوڑھے وا لدین کو رکھنے کے زعم میں نا نا، نانی کو بھی نواسی کی شادی میں شرکت کی اجا زت نہ دی نواسی کی شادی میں شرکت کرنے کاارمان لئے نانا، نا نی دل مسوس کر رہ گئے وہ دونوں کر بھی کیا کر سکتے تھے بیٹے کی حکم عدولی کا مطلب تھا گھر سے در بدری جو وہ بلکل افورڈ نہیں کر سکتے تھے اور بچوں کی نسبت وہ اپنے بڑے بیٹے کے ہا ں زیا دہ سہولت سے گزر بسر ہو رہی تھی اس بات کا فائدہ اٹھا کر بڑ ے بیٹے نے ماں ،با پ کو یر غمال بنا لیا تھا جس سے جی چا ہتا انھیں ملنے دیتے جس سے وہ خود نا راض ہو تے تو ما ں با پ کو بھی جر ات نہ تھی کہ وہ ان سے رابطہ رکھتے خواہ وہ ان کی سگی اولاد ہی کیوں نہ ہو ثمینہ نے مجھے ایک مر تبہ اپنا قصہ بھی سنایا تھا کہ کس طرح ا سکے شوہر اور جیٹھ میں کسی بات پر تکرار ہو گئی تھی تو جیٹھ صا حب نے ماں باپ کو پانچ سال تک بیٹے سے ملنے نہیں دیا ثمینہ کے شوہر کبھی کسی تقریب تو کبھی کسی رشتہ دار کے ہاں اتفاقا ما ں، باپ سے ملتے وہ بھی چوری چھپے کہ بھائی کو پتہ نہ چل جا ئے یہ سلسلہ پا نچ سال تک چلا آخر صلح صفا ئی ہو ئی اور ما ں ،باپ سے ملنے کے راستے بحال ہو ئے لیکن اب سیر کو سوا سیر کے مترادف بڑی با جی ادھار چکا نے کے موڈ میں تھیںسو وہ اس شادی میں کسی صورت شریک ہو نے پر راضی نہ تھیں جیٹھ صاحب کی جا نب سے خاندان کے برزگوں کو سفارشی مشن پر بھیجا جا رہا تھا معا فی اور در گزر کی کئی اسلا می اور خاندانی روایات وکہا نیوں کے حوالے اورمثا لیں پیش کی جا رہی تھیں مگر بڑی با جی ٹس سے مس نہ ہو ئیں خا ندان کے تما م بزرگ ان کی اس دلیل کے آگے خاموش ہو جا تے اور انھیں حق بجانب سمجھتے ان کا شکوہ تھا کہ بڑے بھا ئی کود شریک نہ ہو ئے کو ئی بات نہیں مگر ماں ،ابا کو تو شرکت کی اجازت دے سکتے تھے میرے گھر کی پہلی شادی تھی بھائی صا حب نے اماں ابا کو یر غمال بنا رکھا ہے ۔یہ ایک ہمارے معاشرے کا عام سا واقعہ ہے مگر المیہ یہ ہے کہ نجا نے ایسے کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کے ہا تھوں یر غما ل ہیںنہ اپنی مرضی سے کہیں آجا سکتے ہیں نہ کسی سے ملا سکتے ہیں اسی قسم کا ایک واقعہ ٹی وی پرایک سما جی پروگرام میں دیکھا جس میں ایک بوڑھے والد اپنا مقدمہ عوام کی عدالت میں لے کر آئے والد بزرگوار کے تین بیٹے تھے انھوں نے ڈرائیور کی نو کری کرتے ہو ئے تینوں بیٹوں کو بہت اعلی تعلیم دلا ئی بیٹوں نے تعلیم سے فر اغت کے بعد جب زندگی کی دوڑ میں اچھے اسٹیٹس پر پہنچے تو والد کو اپنے پر انے دوستوں سے رابطہ رکھنے پر پا بندی لگا دی بیٹے اس با ت پر ہتک محسوس کرتے تھے کہ انکے والد معمولی کام کرنے والوں سے ملنا جلنا رکھیں ۔ ہماری مشرقی اقدارمیں والدین کی خدمت اور تعظیم پر اب بھی بہت سے گھرانے سختی سے پا بند ہیںلیکن! جس تیزی سے ہما رے سماج میں مغربی لا ئف اسٹائل در آمد ہو رہے ہیں اس کی نظیر پہلے کبھی نہیں ملتی اب سے محض چند سال پہلے اولڈ ہا وس کے نام سے ہما رے لوگ سو چتے تھے کہ کیسی بری اولا د ہے جو والدین کو اولڈ ہا وس میں قید کرا دیتی ہے مگر آج ہمارے اپنے ملک میں بز رگوں کے لیے پنا ہ گا ہیں بننی شروع ہو گئی ہیں اب نہ کو ئی چو نکتا ہے نہ افسوس و دکھ کا اظہا ر کرتا ہے کسی کو بھی اس با رے میں سو چنے کی فر صت نہیں ہے سب نے مصلحت کی چادر اوڑھ لی ہے اور کہیں والدین اولاد کے ساتھ رہتے بھی ہیں تو وہاں ثمینہ جیسی مثالیں بھی مو جود ہیں اولادوں نے اپنا ہی ضابطہ اخلاق والدین پر لا گو کیا ہوا ہے کہ جہاں جس سے ہم ملیں گے ا پ بھی اسی سے ملیں گے ورنہ سے آ گے بہت کچھ ہے جو والدین کو یر غمال بننے پر مجبور کئے ہو ئے ہے ۔
) سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے بزرگوں سے اس قدر لا پراوئی اور بے حسی کا رویہ کیوںر کھتے ہیں شائدہم بھول جا تے ہیں کہ ہم نے بھی کبھی بوڑھا ہو نا ہے بات چل نکلی تو میں آپ کو ایک اور رویہ سے متعارف کراتی جا ئوں اسی معا شرے میں ایک ایسی خا تون کو جا نتی ہوں جو اکلوتی بہو ہو نے کے زعم میں مبتلا ہیں گھر میںساس بہو کی معمولی سی ان بن پر وہ پچھلے پندرہ سالوں سے اپنی ساس سے ناراض ہیں اورایک ہی گھر میں رہتے ہو ئے سلسلہ کلام کو بند کئے ہو ئے رہنا اس طرح کی بے رخی وہ کس طرح نبھا تی ہو ں گی عقل حیران ہے ۔ان کی بوڑھی ساس کو خاندانی تقریبات میں خاموشی سے کو نے میں بیٹھے دیکھتی ہو ں تو دل بہت دکھی ہو تا ہے کیونکہ اس نا رضگی والی با ت کا بہت کم لو گوں کو علم ہے ایسی نجا نے کتنی خاموش مثالیں ہمارے آس پا س مو جو د ہیں ہمیں خبر بھی نہیں ہو گی وقت جس تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم ماہ سال کو گن بھی نہیں پا تے کہ کیلنڈر تبدیل ہو جاتے ہیں یہ یا د رکھنا چا ہیے کہ بے بسی کا یہ دور جلد ہم سب پر بھی آنے والا ہے خدارا اپنے بزرگوں سے اچھے برتائو کی ایسی مثالیں اپنے بچوں کے سامنے پیش کر یں کہ وہ بزرگوں کی خدمت کو زندگی کالازم و ملزوم حصہ سمجھنے لگے آج اگر ہم اپنے والدین کو یر غمال بنا ئیں گے تو کل تا وان بھی تو ہمیں ادا کرنا ہو گا یہ تو سب جا نتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا ہی بھریں گے ۔