ڈاکٹرفیصل حنیف
“مانند خار خشک طوفاں رسیدہ، اپنا حال درہم کیےگریباں دریدہ، میں بوڑھا مقہورستم دیدہ ، اسد اللہ خاں مردم گزیدہ، زمانے کی روش سے آزردہ ، احباب کی دوستی سے افسردہ، جدید شاعری سے خوفزدہ، غالبؔ ختم شدہ، بس ایک محفلِ سخن ڈھونڈتا ہوں جو دل میں چمک اور چہرے پر دمک پیدا کر دیوے، جو زبان میں حلاوتِ شہد و شکر، رگوں میں نورِ شمس و قمر بھر دیوے – شعر کے حسن کے آگے ماہ دو ہفتہ بیٹھا جاوے، رنگینی سخن سے رنگ ہوا کا بدلا جاوے- یعنی میں شعر و سخن کا دلدادہ اپنا حال درست کرنے کی راہ ڈھونڈتا ہوں، یہ خواہش ناروا ہو تو میں قصوروار- “
“مرزا نوشہ، شعر بازی کھیل نہیں، الفت و کلفت کے مزے جب کوئی اٹھاتا ہے تو شعر ہوتا ہے، سو تمہاری شکایت بجا، تمہاری حسرت روا، پہ وہ کونسی کشمش ہے جس میں تنکا نہیں؟ تم حیران کیوں ہوتے ہو؟ ایک تقریب ڈھونڈ لایا ہوں، دوحہ میں تمھارے معنوی شاگرد برخوردار فیصل حنیف نے گزرگاہِ خیال کی ایک محفل آراستہ کی ہے، طبیعت میں بل پڑے تو میں سزاوار- “
“استادِ ظفرؔ ، سچ کہتے ہو، الفت و کلفت کے مزے سوا، شوق تخلیق و لذت آزاری، جان لو آبدار شعر کہنا بچہ جننے سے کم نہیں- زمانے کی ہوا پلٹ گئی، جو موا کچھ نہیں وہ شاعر- اس واسطے دل میں خوف بہم ہے، ڈرتا ہوں، جدید شاعری کیا دکھلاوے، نام سے کانوں پر ہاتھ دھرتا ہوں، اس کے سہنے کو پتھر کی چھاتی، اور سینے میں دل نہیں سِل درکار ہے- میں مرحوم، اس سے محروم کاہش اٹھانے کا مقدور نہیں- غزل خوانی کیا ہے، میت کے غسل کا پانی ہے، ہر غزل مردار گوشت، ہر شعر ایک زخم ، ہر مصرع ایک پھوڑا، ہر لفظ نکسیر، ڈرتا ہوں ذوقِ شعر کو ٹھیس نہ لگ جاوے، سوزش سینہ بڑھ نہ جاوے- ٹیس اٹھے تو کیا علاج- ہار کے جھک مار کے کہتا ہوں کہ ناچار جان سے ایک بار پھر گزرنا مجھ کو گوارا نہیں- میرؔ صاحب کا سا حال ہے :
گھر سے نکل کر کھڑے کھڑے پھر جاتا ہوں میں یعنی میر
عشق و جنوں کا آوارہ حیران و پریشاں کیدهر جائے
میں میر حال کدھر جاؤں؟”
“مرزا، تم جانتے ہو، میاں فیصل کی چشمِ حمایت تمہاری طرف، لطف و عنایت تمہاری طرف، تمھارے ٹھیس لگے، اس کو کیونکر منظور ہو؟ ہاں گزرگاہِ خیال کی اس محفل میں دوحہ کے ہونہار شاعر افتخار راغبؔ کی شاعری پر گفتگو ٹھہری ہے، میاں افتخار کی چوتھی کتاب کا انتظام ہوا جاتا ہے، لڑکے کی شاعری پر لطف ہے، ستم گاری و دل آزاری نہیں سادگی و پرکاری ہے- مرصّع سازی ہے، سخن سازی ہے، سرمایہٴ سرور ہے، شعروں سے لفظ مانند ستاروں کے جھڑتے ہیں- میں ضامن- رموزِ عاشقاں عاشق بدانند، خود چل کر دیکھ لو- “
“تمہارا کہا اس کے باب میں جس کے تم مصاحب نہ وہ تمہارا مصاحب، غلط کیونکر ہو گا- وظیفہ خواری بھی یاں موقوف- اگرچہ داد پس انداز محل ڈھونڈتی ہے، پہ اپنی تسلی کی خاطر، تمھارے دعوے کو سچ مانوں گا گر ثبوت میں دو شعر ایسے سنا دو کہ دوحہ جائے بن نہ بنے-“
“مرزا، لو سنو :
چشمِ امید کی چمک تم ہو
دل میں ہر دم ہے جو کسک، تم ہو
کون مجھ سے مجھے چرائے گا
مجھ کو جس شخص پر ہے شک، تم ہو
“مرزا کہو، بولتے نہیں؟”
“استادِ شاہ، تم ہو-“
“مرزا نوشہ، چہ معنی؟”
“استاد شیخ ابراہیم ذوق، تم ہو، جو ایسے روح کو تازہ کرنے والے شعر سناتے ہو- پہ مقطع چھوٹ گیا، سنا دو تو شاعر کو داد اور تم کو دعا دوں-“
“مرزا، تم نے کہا تھا کہ دو شعر سناؤں-“
“وہ دل لگنے، مے خانہ کھلنے سے پہلے کا قصہ تھا – یعنی جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم، کی کیفیت تھی- میں معتقد ہوا، زیادہ تکرار کیوں کرتے ہو، مقطع سناؤ- ہاں ایک اور شعر بھی سنا دو تو کیا غضب ہو گا؟”
“مرزا، کمر کس رکھو، ایک شعر اور مقطع سنو-”
میں بھی شاید کبھی نہ رہ پاؤں
جس طرح مجھ میں بے جھجک تم ہو
جھانکتے کیا ہو چشم ِراغب میں
جان لو تم کہ جان تک تم ہو
“مرزا ، کیا کہتے ہو؟”
“لڑکے نے خورشید پہ بڑھ کے ہاتھ ڈال دیا- شعر میں گرمی شعلہ ٴ فشاں کی ، ہمواری آبِ رواں کی ، دلکشی حسن ِبتاں کی، صحت نوکِ زباں کی اور چستی کماں کی ہے- چلو اس غزل کو توشہ ٴراہ بناتے، شعر گنگناتے دوحہ چلیں اور برخوردار افتخار کی زبان سے نغماتِ شیریں سنیں- “
“مرزا، میں نہ کہتا تھا کہ کسی کی بات پر نہ جاؤ-“
جناب رفعت مآب خاقانی ہند ملک الشعراء شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ، اور جناب عزت مآب دبیر الملک مجتہد العصر نواب مرزا اسداللہ خاں غالبؔ گزرگاہِ خیال کی اس شام جو افتخار راغبؔ کے نام ہے، میں تشریف لاتے ہیں- آپ کا استقبال کرتا ہوں – زیادہ حدِ ادب-
“اقبال نشان فیصل حنیف، غالبِؔ فقیر تمہاری الفت میں گرفتار، مشتاقِ سخن بن خواہش دل پہ دھرے خوش نوا یانِ چمن کی رنگ سامانیاں، معانی کی زر افشانیاں، طبع سخن کی جولانیاں دیکھنے آ پہنچا – اب تم جو دکھلاؤ- ہوا چاہے جو رنگ بدلے، یاد رہے اچھا شعر میرا حق ہے-“
“مولائی حضرت ِذوقؔ، مرشدی حضرتِ غالبؔ، میں اپنے بخت پر شاداں، قسمت پر نازاں، اور خوبی تقدیر پر فرحاں ہوں کہ آپ کا دیدار نصیب ہوا- دو ماہ نیم ماہ یکجا ، کس نے دیکھا ہے – آپ کے استقبال کو لحن کا دامن سمٹ گیا – تجمل حسین خاں کو نہیں جانتا، اسداللہ خاں کو جانتا ہوں، اور مانتا ہوں –
زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لیے
گزرگاہ خیال کی اس محفل میں مذاق شعر دیوار و در سے بمثل ابر برسے ہے- یاں یارانِ سخن عبد الحئی و سلیمان دہلوی، جلیلؔ و عدیلؔ ، شادؔ و راغبؔ ، انظرؔ و مرزا اطہر، ظفرؔ و طاہرؔ ، توصیف و حنیف، ثروت کپتان و عطا الرحمٰن ، رضوانؔ و عرفانؔ ، غفرانؔ و علی عمران، مقصودؔ و عبد المجید. زبیرؔ ، ظہیرؔ و وزیرؔ ، فیاضؔ و نایابؔ، نعیم قیوم، راشدؔ عالم و مصطفیٰ انجم ، اشرف صدیقی و عبد الملک قاضی، ارشادؔ و خالدؔ منتظر دور بادۂ شعر، آمادہ پرواز معنی آپ کا انتظار مثال جوئے بیقرار کھینچتے ہیں- “
“خدا اہل گزرگاہ خیال کو سلامت رکھے- فخر المتغزلین شاعرِ خلیج جلیل ؔنظامی کا چرچا واں بھی ہے- ظالم عجب ہوس خیز شعر کہتا ہے، چند صدیاں پیشتر ہوتا تو خوب معرکہ آرائی ہوتی- خاقانیِ ہند، تم نے جلیلؔ کا یہ شعر تو سنا ہو گا-
ماہ ِنو دیکھنے تم چھت پہ نہ جانا ہرگز
شہر میں عید کی تاریخ بدل جائے گی
“مرزا ، جلیل ہنگامہ ایجاد نکتہ داں نے اس خوبی سے شعر میں جان ڈالی ہے کہ لطف آنکھوں سے دیکھتا ہوں-“
“حضور مرزا صاحب، خوبی قسمت آپ موجود ہیں، بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے؟ قطر میں آموں کا موسم ہے -“
“میاں لڑکے فیصل، آموں کا بیاں ہو چکا، خامہ نخلِ رطب فشاں ہو چکا- زبان جاں کہتی ہے کہ اب بیاں کی نہیں ساماں کی فکر کرو- محفلِ سخن میں آموں کو ملا لو تو آتشِ گل پہ قند کی صورت بن جائے، شعر و شکر کا معاملہ خوب شیرینی پیدا کرے گا”
“جو حکم مرزا صاحب- جناب افتخار راغبؔ سے شعر سنیے، یہ لیجیے پیوندی آم حاضر ہیں، آم کھائیے اور شعر گنیے-میرا مطلب ہے شعر سنیے- ”
“اور ہاں، یہ تقریب بہرِ ”یعنی تو“ہے-“
“یعنی، کون؟”
“یعنی تو”
“میری جان، خدا تیرا نگہبان، حق تمہیں عمر و عزت دے، یہ کیا بے تکلفی ہے؟ یعنی “تو” طرزِ تخاطب کسی طور مناسب نہیں- میں بلی ماران کا ہوں،کیا تماشا دکھا سکتا ہوں، میرے ہم محلہ، دشنام طرازی میں ہم پلہ سلیمان دہلوی سے پوچھ لو -“
“حضور مرزا نوشہ، ‘یعنی تو’ جناب افتخار راغبؔ کے چوتھے شعری مجموعے کا نام ہے- یعنی
ڈھونڈ کر لاؤں کوئی تجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل، یعنی تو
“میاں لڑکے فیصل، سلامت، تم نے میری آبرو بڑھائی- عزیز تر میاں راغبؔ شعر سناؤ، آموں کا لطف بڑھاؤ- “
“حضرت مرزا ، حضرت ذوق، اور احباب گرامی غزل پیش کرتا ہوں :
جب سے تم غزلوں کے محور ہو گئے
میرے سارے شعر خود سر ہو گئے
“طرز شعر نرا فسوں ہے- ‘جب سے’ نے عجب لطف دیا- ایسے شعر دل کو شگفتہ کرتے ہیں- “
“واہ مرزا اس کو کہتے ہیں کہ طبعیت نے راہ دی اور شاعر نے نباہ دی- شعروں کو محبوب کا ہم مزاج بنتے خال خال دیکھا ہے- محبوب کی خوبی کو شعر کی خوبی بنا دیا- واہ برخوردار-“
” خاقانی ِہند ، مصرع گنگنانا بند کرو تو لڑکا اگلا شعر سنائے- “
پھول جیسے ہاتھوں میں لے کر گلاب
اس نے یوں دیکھا کہ پتھر ہو گئے
سر اٹھا کر ظالموں سے بات کی
آج ہم اپنے برابر ہو گئے
“کیا شعر جوڑا ہے، کٹ کٹ کے جگر گرا جاتا ہے- آج ہم اپنے برابر ہو گئے-“
“میاں بصد افتخار یہ مضمون باندھ کر تم اپنے سے بڑے ہوگئے- برابر اس سے پچھلے شعر میں ہو چکے-“
وادیِ عشق میں اب گم ہو جاؤں
مجھ میں بس جاؤ کہ میں تم ہو جاؤں
“بے ساختگی اور والہانہ پن قابلِ دید ہے- شعر کہنے والوں کے لیے صلائے عام ہے کہ طواف کوئے جاناں مسلسل تمنا کے پیچ و خم کو جب اور الجھا دے تو ایسی حدیثِ نو سوجھتی ہے- مرزا، تم کیا کہتے ہو؟”
“شعر گریباں گیر ہے- رنگینی اور نزاکت مل گئے- عشق کی دنیا اسی سرمستی سے آباد ہے-“
کیا عشق ہے جب ہو جائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
جب ذہن کو دل سمجھائے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
“اچھی ردیف ہے، عشق کیا ہے، کوئی کم پہنچتا ہے، سمجھنا مشکل ، سمجھانا مشکل تر ، ایک حالت اسکی تھی جو مصحفی کو سمجھانے آیا تھا-
عشق کے صدمے اٹھائے تھے بہت پر کیا کہیں
اب تو ان صدموں سے کچھ جی اپنا گھبرانے لگا
دیکھتے ہی اس کے کچھ اس کی یہ حالت ہو گئی
جو مجھے سمجھائے تھا میں اس کو سمجھانے لگا
یعنی، کون سنتا ہے کسی کی”
میں ا وروں کو سمجھاتا تھا، اے عشق مجھے معلوم نہ تھا
جب کچھ نہ سمجھ میں آئے گا، تب بات سمجھ میں آئے گی
پہلے شعر کی توجیہ کتنی پر لطف ہےمرزا – سخن کو خم بہ خم کھلتا دوسرے شعر میں دیکھا ہے- اس زمین میں ہنر بند کرنا معمولی بات نہیں- سچ تو یہ ہے کہ جو دلِ عاشق پر گزرتی ہے اس کو بیان کرنا مشکل ہے، یعنی جو دل پہ گزرے ہے دل ہی جانے ہے، زبان بیچاری واردات کجا، مدعا بیان کرنے سے بھی قاصر ہے، لیکن اگر کوئی قلبی واردات بیان کر پاوے تو وہ شاعر، ایسے بیان کر دیوے کہ سننے والوں پر وہی واردات گزر جاوے ، کلیجہ پکڑ کے رہ جاویں ، دل کو سنبھالتے رہ جاویں، تو سخنور- مبارک مبارک برخوردار افتخار- “
اس نے کہا تھا ایک شب، “تم نے مجھے بدل دیا”
کیسے کہوں میں اس سے اب تم نے مجھے بدل دیا
جادو اثر ہر اک ادا، چہرہ ہے یا کہ معجزہ
دکھلا کہ اک حسین چھب تم نے مجھے بدل دیا
“میاں لڑکے تم نے مجھ کو بدل دیا- تمہاری شاعری حیات بخش ولولوں اور فکر، تعمیر و تسخیر کی تصویر ہے- معانی کو شعر میں کس لینا تم جانتے ہو- میرا دل خوش ہوا”
“برخوردار فیصل حنیف تم کیا کہتے ہو،”
” پیر و مرشد میں بھی وہی کہتا ہوں جو آپ کہتے ہیں، یعنی انداز، حسن، خوبی، ادا، شرحِ آرزو، نغمہ ریزی، داستانِ شیریں، جناب افتخار راغب ؔ کی شاعری پڑھ کر میرے دھیان میں آتے ہیں-“
“یعنی، ‘یعنی تو’؟”
“یعنی تو”
“صاحب، بارے آموں کا کچھ اور ساماں ہو جائے؟”
ڈاکٹر فیصل حنیف
دوحہ ۔ قطر
٢٠/جولائی ٢٠١٧