طاہرہ فردوس چوہدری
انسان کو دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے معاشرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔معاشرہ افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے جہاں لوگ مِل جُل کر یکساں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی ضروریات زندگی کے مختلف کام انجام دینے کے لئے ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں۔ایک معاشرہ میں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب کے لوگ اکھٹے رہتے ہیں۔ہر قوم اور مذہب کے پیروکاروں کے مزاج اور روایات الگ الگ ہوتے ہیں ان مختلف مذاہب ،مختلف عادات و مزاج کے لوگوں سے ہی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ہر معاشرہ یا سوسائٹی کی اپنی روایات اور اقدار ہوتی ہیں جنکی پیروی کر کے ہی افراد اپنی زندگیوں کو بہتر بناتے ہیں۔
جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو عام طور پر پھر اسکا نام معاشرے کے ساتھ اضافی طور پر لگایا جاتا ہے جیسے مغربی معاشرہ، اسلامی معاشرہ
یورپین سوسائٹی یا مغربی معاشرہ میں بسنے والے افراد کا اپنا معیار زندگی ہے۔یہاں اخلاقی اقدار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور انسانی قدروں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ایسے ترقی یافتہ معاشرے میں بطور مسلمان زندگی گزارنا ہم سے بہت ساری چیزوں کا تقاضا کرتا ہے جن پر عمل کرکے ہم نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اس سوسائٹی کی تعمیروترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
-1میانہ روی اور اعتدال کا رویہ –
میانہ روی اور اعتدال کسی بھی معاشرہ کا حُسن ہوتا ہے۔بطور مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اعتدال کا رویہ اپنائیں۔کسی بھی معاملہ میں حد سے تجاوزنہ کریں۔ اسلامی تعلیمات ایسی ہیں جو زندگی کے ہر شعبے اور گوشے میں میانہ روی کا راستہ دیکھاتی ہیں۔ میانہ روی سب کے لیے ضروری ہے اور ہر کام میں ضروری ہے، صرف دنیاوی معاملات اور معاشی مسائل ہی میں مفید نہیں ہے، بلکہ دینی معاملات میں بھی اعتدال لازمی ہے۔ رسول الّلہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے
:میانہ روی اخیتار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی وہ کام بگڑ جا تا ہے (صحیح مسلم)
2-اعتماد کا ماحول-
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد اور سب کے ساتھ اعتماد کا ماحول پیدا کریں۔ لوگوں کو ہماری دیانت داری اور اخلاص پر بھروسہ ہونا چاہئیے تا کہ وہ ہمارے ساتھ لین دین، کاروبار یا باقی معاملات زندگی کرتے ہوے ہچکچاہٹ نہ محسوس کریں ۔رسول الّلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلان نبوت سے پہلے بھی صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام توحید کو مسترد کر دیا تھا مگر وہ اپنی امانتیں پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رکھواتے تھے۰
-3علم وتحقیق
ہمیں علم و تحقیق پر فوکس کرنا ہے۔اس سوسائٹی سے جو مواقع اور سہولیات ملی ہوئ ہیں انکا اچھا استعمال کرتے ہوے خود کو علمی طور پر مضبوط کریں۔یورپ میں اسلام کے متعلق بڑی حد تک لاعلمی کی وجہ سے غلط فئمیاں پائ جاتی ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اسلام کے متعلق صحیح معلومات فراہم کریں۔ریسرچ ورک پر فوکس کریں اسلام کا اصل چہرہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے اسے اپنے عمل وکردار سے اجاگر کریں
-4تشخص اور شناخت کو برقرار رکھنا
ہمیں بطور مسلمان اپنی پہچان اور شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذہنی ورحانی طور پر مضبوط ہوں۔اسلام کی سچائ اور آفاقی تعلیمات پر مکمل یقین اور آگاہی ہو۔اسلام کے بارے میں ہمارا تصور اور آئیڈیالوجی بلکل واضح اور کلئیر ہو کہ اسلام ہماری روحانی اور جسمانی دونوں ضرورتیں پوری کرتا ہے اور صرف آخرت کی بھلائ کی بات نہیں کرتا بلکہ دنیاوی زندگی کی نعمتوں کی بھی تاکید کی گی ہے قرأن مجید میں ارشاد ربانی ہے اور ہمیں یہ دعا سیکھائ گی ہے
ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرۃ
چونکہ ہم خود اسلام کی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں اسلئے اپنی شناخت اور اپنی ویلیوز سے گھبراتے اور شرماتے ہیں
-5تحفظ کا احساس
ہم بحثیت مسلمان ایسے شہری بن کر رہیں کہ ہمارا وجود ان کو تحفظ کا احساس دلائے ۔ ہم اسلام کے سفیر ہیں اور اس دین کے پیروکار ہیں جو امن وسلامتی اور پیار و محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں اس فرمان کو اپنے کردار کا حصہ بنانا ہے۔ ہم جس جگہ پہ بھی ہوں، جس ملک یا شہر میں رہیں،سفر کریں ، تقریبات میں شریک ہوں ہمارا پُرامن رویہ اور کردار ہی کامیابی کی کنجی ہے
-6موثر آواز اور تعلقات عامہ
یورپ میں جمہوریت کا نظام ہے۔اقتدار اور قانون سازی چند لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہوتی۔ حکومت کی پالیسوں اور فیصلوں میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے اقتدار کے ایوانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے رابطے اور تعلقات بناے جائیں اور بااثر لوگوں تک اسلام کا امن ، رواداری والا بیانیہ پہنچایا جا سکے
-7اختلافات کا حل
اختلافات کی صورت میں لڑائی جھگڑا،تشدد اور انتہا پسندی کا رویہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ بات چیت اور ڈائیلاگ کے ذریعے ہی اختلافات کو حل کرنا چائیے۔ اسلام میں انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ تشدد، عدم برداشت اور انتقامی رویہ کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔اپنے موقف کو دلائل اور لاجک کے ساتھ پیش کیا جاے اور عقل ودانش، تدبروحکمت اور دور اندیشی سے ہی اختلافات اور مسائل کا بہترین حل ڈھونڈا جا سکتا ہے
-8 وفاداری اور محبت
انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اور جہاں بھی زندگی گزارتا ہے وہ اسکا وطن کہلاتا ہے۔ اس ملک وسر زمین سے محبت اور قلبی لگاؤ ہونا ایک فطری بات ہے۔یورپ میں رہتے ہوے یہ ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ جس ملک میں بھی رہئیں اُس کی حفاظت اور سیکورٹی کا خیال رکھیں۔ کوئی ایسا کام نہ کریں یا ایسے لوگوں کے ساتھی نہ بنیں جن سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہو یا کس قسم کا نقصان خواہ وہ حکومتی املاک ہوں، ادارے ہوں ، شاہراہیں ہوں یا پبلک مقامات ہوں۔ان سب کی حفاظت کرنا ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے
-9فلاح وبہبود
اسلام کا فلاح بہبود اور رفاہ عامہ کا تصور کسی مخصوص قوم ، مذہب یا کسی خاص طبقہ سے نہیں ہے بلکہ سب مخلوقات کے لئے یکساں ہے- ہمیں یورپ کے لوگوں کے مسائل سے آگاہی ہونی چائیے اور بطور مسلمان اس سوسائٹی کی فلاح وبہبود کے لیے اور مسائل کے حل کے لئے اپنی مثبت صلاحتیوں کو بروے کار لیتے ہوے عملی کاوشیں کرنی چاہیے کیونکہ اب ہم اس معاشرے کا جزو ہیں ۔
اس ضمن میں تمام سماجی اور رفاہی خدمات شامل ہیں-
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے
(الجامع الصغیر) “سب سے بہتر وہ شخص ہے جس سے انسانوں کو سب سے ذیادہ فائدہ پہنچے”
-10کلچر رسوم ورواج اور اسلام
ہماری بہت ساری روایت اور رسوم ورواج کا تعلق کسی علاقے ، قبیلے یا خاندان سے ہوتا ہے جسکی وجہ سے بہت ساری غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ان رسوم ورواج کا تعلق اسلام کے ساتھ ہے۔یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسےکلچر کو اسلام سے نہ جوڑا جائے بلکہ ہر پلیٹ فارم پر یہ بات واضح کی جانی چائیے کہ یہ ہمارا مقامی کلچر یا رسوم ورواج ہیں انکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور کوشش کی جاے کہ ایسی تمام رسوم ورواج اور روایات سے گریز کیا جاے جن سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔