شازیہ عندلیب
پچھلے دنوں یہ خبر محب وطن پاکستانیوں کے لیے بہت تکلیف دہ تھی کہ یورپ اور دیگر ممالک جن میں یو کے امریکہ اور مڈل ایسٹ شامل ہیں میں پی آئی اے کی پروازوں پر چھ ماہ تک کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے۔جبکہ مختلف ممالک میں پاکستانی پائلٹوں اور فضائی عملے کو جعلی ڈگریوں کی وجہ سے معطل کر دیا گی ہے حتیٰ کہ ایک تازہ خبر کے مطابق ایتھوپیا نے بھی پی آئی اے کے پائلٹوں کو نا قابل اعتبار قرار دے دیا ہے۔ا۔ اس تحریر میں میری مخلصانہ اور ہمدردانہ کوشش ہو گی کہ معاملے کا تجزیہ کر کے اسکے ممکنہ حل تجویز کیے جائیں جن پر نہ صرف قومی ائیر لائن بلکہ ہماری قوم کا ہر فرد انفرادی طور پہ بھی عمل کر سکے۔
یہ دونوں خبریں نہ صرف پاکستان کی معیشت کے لیے شدید دھچکا ثابت ہوئی ہیں بلکہ ملک کے لیے بدنامی کا باعث بھی ہیں۔
اس کے بعد ترکی کی جانب سے بھی ایسی ہی خبر سننے میں آئی کہ وہاں بھی پاکستانی پائلٹوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
ا س افسوسناک ملکی معاشی دھچکے والی خبر نے دکھ کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔اسی سلسلے میں ایک تحریر بھی نظر سے گزری جس میں مصنف
نے اس بات پر اظہار تاسف کیا کہ اگر پائلٹس کی ڈگریاں جعلی تھیں تو باقی عملے کو کیوں برطرف کیا گیا۔پائلٹوں کے جرم کی سزاء باقی عملے کو تو نہیں ملنی چاہیے تھی۔ مگر انہیں شائید یہ یاد نہیں رہا کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔لہٰذا اس اصول کے تحت انہیں بھی بغیر کسی تصدیق کے مفت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔
یہ سب کچھ ایکدم سے نہیں ہو گیا یہ وہ برسوں پرانے غلط اور نا عاقبت اندیشانہ رویے ہیں جو کہ ملکی قومی اور حکومتی سطح پر قومی پرواز کے ساتھ رواء رکھے گئے ہیں۔ بالکل برفانی تودے آئس برگ کی تھیوری کی طرح۔جس کی رو سے پانی کی سطح پر صرف برف کی چوٹی نظر آتی ہے لیکن پانی کے اندر برف کا بڑا تودہ ہوتا ہے۔اسی طرح پائلٹوں کی معطلی تو محض آئس ٹاپ ہے جبکہ وجوہات برسوں اکٹھی ہونے والی برف جسے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔اور یہ صرف پائلٹس کی بات ہی نہیں بلکہ اس تھیوری کا اطلاق دوسرے شعبوں خاص طور سے تعلیمی شعبوں میں بھی ہوتا ہے۔
قومی سطح پر قومی ائیر لائن کے مسافر کئی برس سے شکایات کرتے رہے ہیں جن پر ائیرلائن کے ارباب اختیار اور وزارت خارجہ نے کبھی کان نہیں دھرا۔جس کے نتیجے میں پی آئی اے اپنے کئی مستقل مسافروں سے ہاتھ دھو چکی ہے۔اگر کوئی شکایئت کی جاتی تو پی آئی اے کا عملہ بجائے شکائیت دور کرنے کے صفائیاں پیش کرنے لگ جاتا۔ پی آئی اے نے ہمیشہ اس بات پر فخر کیا ہے کہ انکی ائیر لائن میں دنیا کے سب سے ناکارہ اور پرانے طیارے ہیں جو انکے لائق انجینیروں کی مہارت نے قابل استعمال بنا دیے ہیں۔باقی جو کسر رہ جاتی تھی وہ مسافروں اور پائلٹوں کی دعاؤں سے پوری ہو جاتی تھی کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ سفر میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔انجینیرز کی قابلیت میں تو واقعی کوئی شک نہیں جس ملک کے ہوائی جہازوں میں رکشوں اور اسکوٹروں کے پہیے فٹ کیا جاتے ہوں اور جس کے جہاز کے ایندھن کی ٹینکی عین پرواز کے وقت لیک کر جائے اور اس وقت مسافروں سے بھرے جہاز کی ٹینکی کی مرمت ماہر انجینیرز کر رہے ہوں ان انجینیروں کو کون چیلنج کر سکتا ہے؟؟
جس ملک کے سیاستدان اور حکمران اور عوام خزانوں اور قومی خزانوں کے مالک ہوں عیش و عشرت میں دنیا کے امراء کے ہم پلہ ہوں اس ملک کی ائیر لائن کے لیے نئے جہازوں کی خرید داری کوئی بڑا مسلہء نہیں ہے۔ اصل مسلہء تو اس احساس کا ہے جو انکے پاس عوام کے لیے ہے۔
میں نے اس فلائٹ کا ذکر بڑی تفصیل سے اپنے ایک آرٹیکل بعنوان جہاز پہ کالا جادو میں کیا تھاجس کی ایک دیہاتی مسافر خاتون جہاز کی پرواز میں تاخیر کا باعث کالے جادو کو سمجھ بیٹھی تھیں۔۔۔۔اسی طرح جب میرا آرٹیکل قومی ائیر لائن ایک سائٹ پر لگا تھا مجھے کچھ شکایات یوں موصول ہوئیں تھیں جیسے میرا تعلق پی آئی اے کے شعبہء شکایات سے ہے۔
جہاں تک پی آئی اے کے پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کا تعلق ہے تو اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں داخلوں سے لے کر امتحان پاس کرنے تک کس قسم کی سفارشیں اور نقلیں کی جاتی ہیں۔وہاں ایک خاص طبقے میں تو محنت سے امتحان پاس کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اور جو اس قدر لائق اور ٹیلنٹڈ اسٹوڈنٹ ہیں وہ بیچارے محض سفارش نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتے بلکہ بیرون ملک انکی بہت مانگ ہوتی ہے۔اس لیے اکثر ترقی
یافتہ ممالک میں آپ کو قابل پاکستانی ماہرین ترقی کے مدارج طے کرتے اور ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔
کل نارویجن شہزادی کے میرٹ پر داخلے کی خبر میری نظر سے گزری تو مجھے اس قوم پر بہت رشک آیا کہ جس کا شاہی خاندان بھی قانون کی پابندی کرتا ہے۔کاش پاکستان کا
حکمران اور امراء کا طبقہ بھی اس سے سبق لے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ناروے اور سویڈن کے نظام سے متاثر تو بہت ہیں بارہا اپنی تقاریر میں اس بات کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ پاکستان کا نظام ناروے اور سویڈن جیسا بناؤں گا لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں وہ شعور بھی تو پیدا کیا جائے کہ قانون کی پاسداری کیا ہوتی ہے؟ محنت کی عظمت اور لائق لوگوں کی قدر بھی تو کی جائے۔
پائلٹس کی جعلی ڈگریوں پر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا جب میں اسلام آاباد یونیورسٹی میں ایم اے ایجوکیشن پلاننگ اینڈ مینیجمنٹ کے کمرہء امتحان میں اپنا پرچہ حل کر رہی تھی۔اس کلاس میں میرا داخلہ میرٹ پر ہوا تھا۔اس امتحان میں حصہ لینے والے طلباء کی اکثریت ایڈمنسٹریشن لیول کی تھی میں بھی وہاں بطور اسکول پرنسپل اسٹڈی کررہی تھی۔وہاں لاہور کراچی ملتان اور دیگر بڑے شہروں کے کالجز اور ٹیکنیکل اداروں کے پرنسپلز بھی تھے۔جن میں فلائنگ اسکول کے ایک پائلٹ اور اسی اسکول کے انسٹرکٹراور پرنسپل بھی میرے کلاس فیلو تھے۔شہر کا نام اندیشہء نقص امن کے تحت نہیں بتا سکتی۔۔
تین گھنٹے کا امتحان تھا کلاس مینیجمنٹ کے مضمون پر کمرہء امتحان میں موجود فلائنگ اسکول کے انسٹرکٹر واش روم چلے گئے اور ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد واپس آئے۔وہ بڑے صحتمند شخص تھے کلاس میں بھی بہت متحرک رہتے سوائے تعلیمی سوا ل و جواب کے ہر چیز میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے۔ اکثر اپنے طلبہ پہ آنکھیں گھماء گھماء کے نظر رکھا کرتے تھے۔اس لیے اس بات کا بالکل امکان نہیں کہ انکا ایک گھنٹہ کمرہء امتحان سے غائب رہنے کسی جسمانی کمزوری یا خرابیء صحت کی وجہ سے تھا۔جی ہاں آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ کیا معاملہ ہو سکتا ہے۔انکی سیٹ چونکہ مجھ سے کچھ آگے تھی اس لیے وہ میریے نوٹس میں آ گئے ورنہ کمرہء امتحان میں کسی کو نوٹ کرنے کی فرصت کسے ہوتی ہے جب تک کوئی خود کسی کے نوٹس نہ لے رہا ہو۔ خیر مقصد اس قصہ کا یہ ہے کہ جس ملک کے فلائنگ
انسٹرکٹر کا یہ حال ہو انکے طلباء کتنے لائق ہوں گے۔مجھے نہیں یاد کہ کلاس میں میں نے کبھی انہیں لیکچرارز سے کوئی سوال کرتے ہوئے سنا ہو یا کسی سوال کا جواب دیا ہو۔بس دائیں بائیں یوں بغلیں جھانکا کرتے جیسے پڑھنے نہیں پکنک منانے آئے ہوں یا پھر جہاز کی لینڈنگ کے وقت کھڑکی سے نظارہ کر رہے ہوں۔۔۔۔حالانکہ ہمارے پروفیسر صاحبان نہائیت
قابل اساتذہ تھے جو میرے لیے انتہائی قابل تعظیم ہیں ایک خاتون میڈم شائستہ اور دوسرے پروفیسر طلعت بہت قابل استاد تھے میڈم شائستہ ایک دراز قد ثوش شکل خوش گفتار اور نہائیت قابل پروفیسر تھیں۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔