یورپی یونی ورسٹیوں میں دراسات اسلامیہ کی موجودہ صورت حال

شبلی اکیڈمی میں ڈاکٹر عطا اللہ صدیقی کی ایک اہم گفتگو
۱۹،دسمبر
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ
مغربی دنیا اسلام خصوصاقرآن و سیرت کے بارے میں جس طرح غور و فکر کررہی ہے اوراپنے نتائج اور فکر و تحقیق کو جس انداز سے پیش کررہی ہے ہمیں ان سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی علمی سطح پر ان کا جواب بھی دینا چاہیے ۔ان چیزوں کو علامہ شبلی اور اس عہد کے دیگر اکابر نے محسوس کیا تھا اور اسی لیے مستشرقین کے جوابات مدلل انداز میں دیے گئے ۔ان خیالات کا اظہار علوم اسلامیہ کے اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر میں سینئر اسلامی اسکالرڈاکٹر عطا اللہ صدیقی نے یہاں شبلی اکیڈمی میں ایک مخصوص نشست کے دوران کیا ۔اکیڈمی کے ڈائرکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے مہمان اسکالر کا تعارف پیش کیا اور مہمانوں کا خیر مقدم کیا ۔انھوں نے بتایا کہ مہمان موصوف اسلامک فاونڈیشن کے ایک ادارے مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کے ڈائرکٹر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں نیز اسلام اور عیسائیت ان کے مطالعہ کا خصوصی موضوع ہے ۔
ڈاکٹر صدیقی نے ابتدا میں صلیب و ہلال کی کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عیسائیت کو جب اس بات کااحساس ہوگیا کہ وہ جنگ کے میدان میں مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے اس لیے انھوں نے اسلام کے خلاف فکری محاذوں پر اپنی قوتوں کو منظم کرنے کافیصلہ کیا ۔اور رسالت ،قرآن اور اسلامی تاریخ کے سلسلے میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔جو مختلف شکلوں میں اب تک جاری ہے ۔
ڈاکٹر عطا اللہ صدیقی نے موجودہ حالات کا کسی قدر تفصیل سے جائزہ لیا اور مختلف مثالوں سے صورت حال کی وضاحت کی ۔معاصر اسلامی علوم کے چیلنجز کے تناظر میں ڈاکٹر عطا اللہ صدیقی نے سوڈان،الجیریا اور دیگر مغربی ممالک کے اسکالر جو کہ اسلامی علوم و افکار پر غور وفکر کرتے رہتے رہتے ہیں ان کے بعض خیالات پیش کیے اور کہا کہ ایک حلقہ ایسا موجود ہے جس کا خیال ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق مباحث اور تحریروں کواسلامی مآخذ کے بجائے دیگر مآخذ سے مطالعہ کرنا چاہیے ۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں ان چیزوں سے باخبر رہنے کے ساتھ ساتھ نئی صدی اور ٹکنالوجی کے لحاظ سے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہاکہ اس کی اہمیت یو ں بھی ہے کہ ہم جس ادارہ میں بیٹھ کر آج گفتگو کررہے ہیں اس کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا ۔
اس موقع پر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے بعد میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ نئے چیلنجز سے واقف ہونا ضروری ہے اور ان کاجواب بھی دیا جانا ضروری ہے کیونکہ غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ہی یہ چیزیں پھیلائی جارہی ہیں ۔

اپنا تبصرہ لکھیں