یوم مادر’ منانے والوں کے نام
عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com
09911657591
10مئی دنیا بھر میں ”یوم مادر ”کے طور پر منایا جاتاہے ۔اس دن تمام لوگ اپنے اپنے طریقوں کے مطابق اپنی مائو ں کے حضور سلام ‘محبت ‘نیک خواہشات اور بے شمار دعائیںپیش کر تے ہیں ۔سال بھر میں یہ ایک نیکی کچھ تو مائوںکی آغوش میں رہ کر تے ہیں اور کچھ عدیم الفرصت لوگ دوردراز سے ہی ٹی وی اورریڈیو کے ذریعے یہ رسم اداکرلیتے ہیں اور ما ئیں ‘بڑے دل والی مائیں اسے ہی حقیقی سمجھ کر خوش ہوجاتی ہیں۔ مائیں بھی اپنے بچوںکی ان سوغاتوں کا سال بھر انتظار کر تی ہیں اور” اپنے دن میں ”اس قدر خوش ہوتی ہیں جیسے انھیں دنیا کا سب سے قیمتی شے حاصل ہو گئی ہو۔اس کے بعد …….اس کے بعد کچھ نہیں لوگ اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں اورمائیں دلوں پر پتھر رکھ کر انھیںرخصت کردیتی ہیں ۔پھر وہی مائوں سے بچوں کی دوری کا عالم ہوتا ہے۔ وہ روتی تو رہتی ہیں مگر اپنے بچوں کے چراغ گل ہونے کے خدشے سے آنسو ئوں کا آنچل کے پلو سے پونچھ لیتی ہیںاور دل کا دراقبال کے الفاظ میں یہ کہہ کر نکلتا ہے:
جدائی میں رہتی ہوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذراتم نے کی
گئے چھوڑ’اچھی وفا تم نے کی
اس حقیقت کے بیان کے بعد میں مغرب زدہ معاشرے اور سوچ کے مالکان سے چند سوال کر تا ہوں :
مجھے بتائیے کیا مائوں کی شفقتوں کا خراج ایک دن میں ہی پورا ہوسکتا ہے ؟کیا مائوں کی نو مہینوں تک کی مشقت کا بدلہ ایک دن میں ہی پورا ہوجاتا ہے؟اس کے بچے کی تربیت کے لیے خون جگر کر نے کا صلہ ایک دن میں پورا ہوجاتا ہے؟کیا مائوں کی بے پناہ محبتوںکی جزا کے لیے ایک دن کافی ہے؟وہ ماں جو اپنے بچے کی معمولی تکلیف پر رات رات بھر بے چین رہتی ہے ۔جو ماں بچوں کے پیشاب کر نے کے بعد خود میں گیلے میں سوتی ہے اور اپنے لال کو سوکھے میں سلاتی ہے۔وہ ماں جو بچوں کی مذاقاً”آہ”پر بھی دل تھام لیتی ہے ”ہائے اللہ میرے بچے کو سلامت رکھنا ۔”اس کے لبوں سے بے اختیار دعا نکلتی ہے۔وہ ماں جو ایام حمل (PRIGNENTکے دنوں) میں اس لیے تیز نہیں چلتی کہ اس کے پیٹ میں پل رہی معصوم جان کو کو ئی چوٹ نہ پہنچ جا ئے ۔ اس فکر سے وہ رات رات بھر ایک کر وٹ پر لیٹی رہتی ہے کہ کہیں اس کی حرکات سے اس کا ”چندا” نہ جاگ جائے ……کیا ایسی ماں کے لیے سال بھر میں بس ایک دن؟؟میرا احساس تو یہ ہے کہ اگر پوری زندگی بھی انسان مائوں کی خدمت کرے تو ایک دن کا قرض نہیں اتارسکتا اور ایک ماں ایسے 2-3-4-5بچوں کو پالتی ہے ۔
یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عالم نادانی میں ہمارا معاشرہ کتنا مغرب زدہ ہو گیا ۔مغرب نے ہمارے ساتھ کیا کھلواڑ کیا ۔اس کا ہمیں کو ئی احساس نہیں ہوا کہ ہم ایک عظیم تہذیب و تمدن کے علم بردار مغربی چمک دمک سے کیسے مرعوب ہو گئے ‘وہ مغرب جسے مادیت اور ذاتی مفاد کے سوا دنیا میں کچھ نہیں دکھا ئی دیتا ‘اس کا بس چلے تو اپنے اقربا تک سودا کر ڈالے ۔ہم اس مغرب کی تقلید کر رہے ہیں جس نے انسانیت کا وقار اس قدر گھٹا دیا کہ وہ جانور سے بدتر ہو گیا۔ہمیں ذرا بھی خیال نہیں آیا کہ ”مائوں کے لیے” ایک دن خاص کردینا مغرب کی ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے ۔ چو نکہ خود ان کی مادیت پرستی مائوں کی خدمت کا موقع نہیں دیتی اس لیے اس نے باشندگان مشرق کو بھی اسی دلد ل میں پھنسا دیا ۔ مغرب کو اس سے جلن ہوتی تھی کہ مشرق والے مائوں کی اس قدر تعظیم کر تے ہیں کہ اسے سرپر بٹھالیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ مائوں سے برسو ں دور رہتے ہیں ‘نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ‘مشرق والوں کے لیے ایسا قانون بنا ئو کہ وہ ان کے دلوں سے مائوں کی عزت و تو قیر نکل جائے اور وہ ہمارے مثل ہو جا ئیں ۔……اور ظالم کامیاب ہو گئے ۔رہ گئے ہم موڈرن ازم کے دلدادہ ہم نے اس پھینکی ہو ئی مذموم رسم کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور مائوں کی عظمت بھول گئے۔پھر اسی پر بس نہیں !مغرب نے اپنی مادہ پرستی کے جراثیم ہمارے معاشرے میں گھول دیے ۔پھر جس طرح وہ مال و دلت کے لیے اپنی مائوں کا قتل و خون کر نے لگے اسی طرح ہمارے یہاں بھی یہ قابل مذمت سلسلہ چل پڑا ۔نہ جانے کتنی مائیں اپنے بچوں کی مالی ہوس کا شکار ہو ئیں اور ہمیں ایک لمحے کو خیال تک نہ آیا کہ یہ ہم نے کیا کر دیا ۔ہم کہاں سے کہاں آگئے۔میں نے آسمانوں کے ڈوبے ہوئے سورج کو اگتے دیکھاہے ‘بجھے ہو ئے چاند کو بھی روشن ہوتے دیکھا ہے اور ٹمٹماتے ستارو ںکی کہکشاں دیکھیں ہیں لیکن اپنے معاشرے کا ڈوبا ہوا سورج ‘چاند اور ستارے ایک ڈوبے تو ڈوبتے ہی چلے گئے ۔میں نے قوموں کی بگڑی تقدیریں بنتے دیکھی ہیں ‘لوگوںمیں شعور اور بیدار ی کے مناظر دیکھے ہیں مگر میری قوم ‘میرا معاشرہ او ر میرے سماج کے لوگ ایک بار بلندی سے گر ے تو گرتے ہی چلے گئے ۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ انھیں بلندی سے گر نے کا ملال تک نہیں ہے اور نہ ہی اس بات کا رنج کہ ہم دنیا سے کتنے پیچھے رہ گئے ۔حالانکہ ہمارے اپنے مذاہب ‘قبلے اور مقدس مقامات ہیں مگر ایسالگتا ہے یہ سب وقتی ہو کر رہ گئے ہیں اگر کو ئی ہمارا ہمہ وقت کعبہ و قبلہ ہے تو وہ ہے مغرب جس کی تقلید کے لیے ہم اپنے مقدس اور تابندہ اصولوںتک کو چھوڑ دیتے ہیں ۔
نہ جانے ہم تاریخ کا یہ سبق کیوں بھول گئے کسی سے تہذیب و تمدن مستعار لینے کی ضرورت نوآباد قوموں کو ہوتی ہے ۔ہم تو قدیم عہد سے سینۂ گیتی پر قایم ہیں ۔ہماری تو ایک قدیم تاریخ ہے۔ہماراتو ایک طویل سلسلہ ہے ‘ہماری تہذیب تو تاریخی اہمیت کی حامل ہے ۔ہمارا تو اپنا نظام حیات ہے ۔ہمارا تو الگ ضابطہ اخلاقیت و انسانیت ہے پھر کیوں ہم مغرب کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ ان کی ایک ایک ادا پر مرتے ہیں اورجب تک اسے اپنی زندگی میں نہیں بسا لیتے چین نہیں ملتا’مغرب کی ہر نئی اسٹایل کو اپنا نا ہم اپنی فرض سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کبھی کبھی تو اپنے خاندان تک سے بغاوت کر لیتے ہیں۔یہ کہاں کی زندگی ہے ۔یہ کہاں کا جیناہے یہ تو موت سے بھی بدتر حالت ہے ۔کیا ہم زندہ ہیں ‘کیا اس آدمی کا وقار ہے جو دوسری کی چھوڑ ہو ئی چیزیں اپناتا ہے ۔کیا اسے زندہ قوم کہا جا ئے گا جو دوسروں کا طرز معاشرت اپناتی ہے۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ بھی احساس نہیں ہے ۔