یہ امت خرافات میں کھو گئی

یہ امت خرافات میں کھو گئی :

 

 

 

 

 

معصوم مرادآبادی
چونکانے والی یہ خبر اترپردیش کے باغپت علاقے کی تحصیل بڑوت کے ایک گاں سے آئی ہے۔ یہاں شبیر عرف کلو خلیفہ کی دو بیٹیوں رخسانہ اور افسانہ کی رخصتی ہیلی کاپٹر اور ہاتھی پر عمل میں آئی۔ دونوں لڑکیوں کی باراتیں غازی آباد اور مظفر نگر کی دو گاں سے آئی تھیں۔ غازی آباد ضلع کے محمد عثمان ولد صوبے دین کا نکاح رخسانہ کے ساتھ ہوا، جو اپنی دلہن کو ہیلی کاپٹر میں سوار کرکے لے گیا۔ جب کہ افسانہ کی رخصتی ہاتھی پر ہوئی جس کی بارات مظفر نگر کے ایک گاں سے آئی تھی۔ دلہن کو لے جانے کیلئے محمد عثمان کے والد نے چار لاکھ روپے ہیلی کاپٹر کا کرایہ ادا کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس شادی میں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اور ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ خبر کے مطابق اس شاہی شادی نے مسلم معاشرے میں بڑی ہلچل پیدا کردی ہے اور چاروں طرف پیسے کی بربادی اور فضول خرچی کے چرچے عام ہورہے ہیں۔ دنیاوی دکھاوے اور نام ونمود کے لئے بیجا اصراف پر تنقید بھی ہورہی ہے اور اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیاجارہا ہے۔ (دیکھئے: روزنامہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی، مورخہ 22نومبر 2012صفحہ 5)
ہوسکتا ہے کہ فضول خرچی اور سماجی بے راہ روی کے اس دور میں آپ کو اس خبر میں کوئی کشش محسوس نہ ہو اور آپ اسے نام ونمود کیلئے برپا کئے گئے ایک تماشے سے تعبیر کرکے آگے بڑھ جائیں۔ لیکن آپ کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ یہ خبر ایک ایسے معاشرے سے آئی ہے، جس میں غربت، بے روزگاری، افلاس اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ ایک طرف اس معاشرے میں لاکھوں لڑکیاں محض اس لئے اچھے رشتوں سے محروم ہیں کہ ان کے والدین کے پاس رخصتی کے لئے وہ مال واسباب مہیا نہیں ، جنہیں جدید دنیا میں زندگی گزارنے کا پیمانہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح نہ جانے کتنے ایسے خاندان ہیں جن کے پاس دلہن لانے کیلئے ہیلی کاپٹر اور ہاتھی تو کجا موٹر سائیکل اور رکشا تک نہیں ہے۔ ایک طرف اصراف بیجا کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنی دولت کی نمائش کا ہیلی کاپٹر فضا میں اس غبارے کی طرح اڑا رہے ہیں، جو چند سانسوں میں پھول کر اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ اب سے کوئی 20 برس پہلے کا واقعہ ہے کہ مشرقی دہلی کے ایک نئے دولت مند مسلمان نے اپنے بیٹے کا شوق پورا کرنے کیلئے اسے گھوڑی کے بجائے ہیلی کاپٹر پر بٹھایا تھا۔ بارات مہرولی کے تیولی گارڈن تک جانی تھی، لیکن حفاظتی عملہ نے ہیلی کاپٹر پر سوار دولہا کو اپنی دلہن کے دالان میں اترنے کی اجازت نہیں دی اور کہیں بہت دور جاکر یہ ہیلی کاپٹر اتارا گیا۔ اس طرح بذریعہ کار دولہا کو اپنی منزل تک پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کو جب اس واقعے کی خبر اخبارات کے ذریعے محکمہ انکم ٹیکس تک پہنچی تو دولہا اور اس کے والد کی مشکلوں کا ایک ایسا دور شروع ہوا، جس کا انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
میرے آبائی وطن مرادآباد میں کئی سال پیشتر ایک نہایت خوشحال مسلم برادری کے دولت مند شخص نے اپنے بیٹے کا نکاح کرنے کیلئے ایک چارٹرڈ جہاز سے دلہن والوں کے ساتھ مدینہ منورہ کا سفر اختیار کیا اور نکاح کی رسم مسجد نبوی میں ادا کی گئی۔ اگرچہ کسی مسجد اور وہ بھی مسجد نبوی جیسی جگہ پر نکاح کی ادائیگی ایک احسن طریقہ ہے، لیکن اس کام کیلئے مرادآباد سے باراتیوں کے ساتھ پانچ ہزار کلو میٹر کی مسافت بذریعہ جہاز طے کرنا ایک خاصا مہنگا شوق ہے۔ جس میں ایک فریضہ کے ادائیگی سے زیادہ اپنی دولت کی نمائش کی آرزو پوشیدہ ہے۔ اسی برادری کی کاروباری اور تعلیمی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے والے ایک میگزین نے یہ خبر شائع کی تھی کہ فلاں سوداگر کے بیٹے کے ولیمہ میں 60 قسم کے کھانے پروسے گئے تھے۔ گزشتہ سال میرٹھ کے ایک مسلم سیاست داں نے اپنی بیٹی کی منگنی پر پانچ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کرکے واہ واہی لوٹی تھی۔ بعد کو شادی کے موقع پر باراتیوں کو موٹرسائیکلوں، فریج اور واشنگ مشینوں کے تحفے دیے گئے۔یہ اور اس قسم کی دیگر خبریں اکثر اخبارات و جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں اور ہم میں سے اکثر لوگ انہیں بڑی حسرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی اتنی دولت ہوتی کہ اس کی نمائش کا بازار گرم کرتے۔ لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں، جو شادی بیاہ میں خرچ کی جارہی بے پناہ دولت اور کھانے کی بربادی کا حساب کتاب اپنے پاس رکھتے ہیں۔
دولت و ثروت کی نمائش کرکے واہ واہی لوٹنے والو ں پر ہی کیوں جائیے، آپ کے ارد گرد ہر روز ایسی شادیاں ہورہی ہیں، جہاں فضول خرچی کی ابتدامہنگے شادی کارڈوں سے ہوتی ہے اور بعد کو یہ کارڈ کوڑے دان میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کرکے شادی کے پنڈال سجائے جاتے ہیں اور انواع و اقسام کے کھانوں پر بے تحاشا صرفہ آتا ہے۔ جب سے کھڑے ہوکر کھانے کی بیماری لاحق ہوئی ہے، تب سے کھانے کی بربادی کا ایسا عذاب ہم پر مسلط ہے کہ اسے کوئی محسوس ہی نہیں کررہا ہے۔ ولیمہ اور رخصتی کے اختتام پر ضائع شدہ کھانے کا ڈھیر کبھی کبھی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس سے سینکڑوں ،ہزاروں لوگوں کی بھوک مٹائی جاسکتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ اپنی جھوٹی شان و شوکت قائم کرنے کی زعم میں ہم اس قدر غرق ہوچکے ہیں کہ مذہبی احکامات اور اپنی روایات کو بھی پیروں تلے روندتے چلے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی ہمارے معاشرے میں ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ پہلے جہیز کی خاطر دلہنیں کہیں اور جلائی جاتی تھیں لیکن اب ہمارے گھروں میں یہ چلن عام ہوا جاتا ہے۔ جس شخص کے پاس نہ دولت ہے، نہ ثروت وہ بھی اپنے گھر میں ایسے خاندان کی بہو لانا چاہتا ہے جو ڈھیر سارا زیور، کپڑے اور جہیز لے کر مہارانی کی طرح داخل ہو اور اس کے گھر کو چار چاند لگادے۔ جن غریب ماں باپ کے پاس بیٹی کو وداع کرنے کیلئے مال و اسباب نہیں ہیں، وہ آخر جائیں تو جائیں کہاں؟ ایسی بے شمار سلیقہ مند اور سگھڑ دوشیزائیں کنواری بیٹھی ہیں، جو اپنے ہنر اور کردار سے کسی بھی گھر کی رونق اور عزت کو دوبالا کرسکتی ہیں، لیکن جہیز کے لالچی ان دالانوں میں اس لئے نہیں اترتے کہ وہاں ان کی خاطر و مدارات اور ہوس کا ساز و سامان موجود نہیں ہے۔ پہلے لوگ جب دلہن کی تلاش میں نکلتے تھے تو سلیقہ مند، وفا شعار اور نیک چلن اور خدمت گزار لڑکیوں کو ڈھونڈا جاتا تھا، لیکن اب لڑکیوں کو ڈھونڈنے کے پیمانے یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ سب سے پہلے دولت، پھر خوبصورتی اور پھر خاطر و مدارات کو ہی ازدواجی رشتوں کا پیمانہ بنالیا گیا ہے۔ اسی لئے تعلیم یافتہ، وفا شعار، باسلیقہ اور ہنر مند لڑکیاںاچھے رشتوں کی تلاش میں اپنی عمریں گنوا رہی ہیں۔ بقول شاعر:
خوبصورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے
خوب سیرت لڑکیاں سب ہاتھ ملتی رہ گئیں
معاشرتی زوال اور مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کچھ روشنی کی کرنیں بھی ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ لوگ ان سے فیض اٹھائیں اور معاشرتی بگاڑ اور ازدواجی زندگی کی تباہی کو روکنے کا سامان کریں۔ یوپی کے شہر رامپور میں ایک عرصے سے یہ چلن عام ہے کہ وہاں لڑکی والے پر بارات کے کھانے کا بوجھ نہیںڈالا جاتا۔ باراتی کھانے سے فارغ ہوکر عصر کے بعد نکاح میں شریک ہوتے ہیں اور اس موقعے پر باراتیوں کی دلچسپی اور احترام کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے، جب کہ ان باراتوں میں جہاں کھانے اور جہیز کی بھرمار ہوتی ہے عام طور پر لوگ نکاح کے وقت غائب ہوچکے ہوتے ہیں۔ جنوبی ہند کی ریاستوں کرناٹک اور آندھرا پردیش کے مسلمانوں نے شادیوں میں در آئی فضول خرچی اور بربادی سے گریز کرنے کا یہ طریقہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نہایت سادگی سے نکاح کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور اس میں کسی دکھاوے یا نمود و نمائش کا گزر نہیں ہوتا۔ اگلے روز دولہا اور دلہن کے متعلقین مشترکہ طور پر ایک دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس طرح دو دعوتوں کو ایک دعوت میں ضم کرکے فضول خرچی کے بہت سے راستے روک لئے گئے ہیں۔ اس طرح کی بعض دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ نام و نمود ، جھوٹی شان و شوکت اور دکھاوے کیلئے کی جانے والی شادیوں میں نفاق اور انتشار کے جراثیم پنپ رہے ہیں۔ چند ماہ پیشتر ایک غریب گھرانے کے نوجوان نے اپنی شان و شوکت کا جھوٹا مظاہرہ کرنے کیلئے قرض لے کر شادی پر لاکھوں روپیہ خرچ کیا۔ دوسری ہی رات دولہا اور دلہن میں ٹھن گئی اور دولہا کا دل اس حد تک اداس ہوگیا کہ دلہن جب سے اب تک مائیکے میں بیٹھی ہوئی ہے۔ معاملہ اس بات پر الجھا ہوا ہے کہ لڑکی والے شادی پر کئے گئے تمام اخراجات اور مہر کی موٹی رقم طلب کررہے ہیں۔ جب کہ لڑکے کی مالی حالت اس کی متحمل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ شادی کی جن تقریبات میں سادگی اور کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس میں نصرت الہی اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جو کام محض دکھاوے اور نام ونمود کے لئے کئے جاتے ہیں، اس میں نفاق اور خرابی پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے سے سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوئی موثر مہم نہیں چل رہی ہے۔ برادریوں، مسلکوں اور علاقوں میں بٹی ہوئی قوم صراط مستقیم سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ قوموں کے زوال میں معاشرتی برائیاں اور نفاق کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے اصلاح معاشرہ کی جو تحریک شروع کررکھی ہے، اس کے بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنے ازدواجی تنازعات کو حل کرنے کیلئے شرعی عدالتوں اور دارالقضاسے رجوع ہونے کے بجائے ملکی عدالتوں میں لے جارہے ہیں۔ جہاں مسلم پرسنل لااور شریعت میں مداخلت کے نت نئے راستے کھولے جارہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں مسلمانوں کے ایک طبقے میں دختر کشی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ پچھلے دنوں بنگلور کے ایک مسلم نوجوان نے محض اس بنیاد پر اپنی بیوی کو اذیتیں دیں کہ اس کے بطن سے بیٹی پیدا ہوئی تھی۔ انتہا یہ ہوئی کہ بعد کو اس ظالم نوجوان نے اپنی شیر خوار بیٹی کو ہی اذیتیں دے کر ہلاک کردیا۔ آج وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ ایسے بے شمار واقعات بیان کئے جاسکتے ہیں، جس میں مسلم معاشرے کی ناہمواریوں اور بے راہ روی کے تازیانے موجود ہیں۔ اگرچہ معاشرتی برائیاں اور بے راہ روی ہر قوم اور مذہب کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے، کیونکہ حرص وہوس کے جراثیم سبھی میں یکساں طور پر فروغ پا رہے ہیں۔ لیکن جب ہم خود کو ایک ایسے نبی کی امت قرار دیتے ہیں، جس نے اپنی پیاری بیٹی فاطمہ کی رخصتی مثالی انداز میں کی تھی اور مہر فاطمی کا راستہ بھی ہمیں دکھایا تھا تو پھر ہم آخر کیوں اپنے راستے سے بھٹک کر دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ ذرا سوچئے!
نکاح کو آسان بنانے کی مہم چلانے والی بیدر (کرناٹک) کی انجمن فلاح معاشرہ کی چند گزارشات پیش نظر ہیں، جو علمائے کرام کی سرپرستی اور قرآن و سنت کی روشنی میں عام مسلمانوں کے لئے جاری کی گئی ہیں۔ ان گزارشات میں نکاح کو آسان بنانے، بے جا رسومات سے پرہیز، جہیز کی لعنت ختم کرنے، نکاح کی دعوت کا اہتمام صرف بیرونی مہمانوں اور گھر کے افراد تک محدود کرنے، دعوت ولیمہ میں سادگی اختیار کرنے اور اس میں غربا اور مساکین کو شریک کرنے، مسجد میں نکاح کو ترجیح دینے، وقت کی پابندی کا خیال رکھنے اور بارات میں بینڈ باجا اور ویڈیو گرافی، قیمتی دعوت ناموں اور اسٹیج کا استعمال ترک کرنے کی گزارش کی گئی ہے۔ اس مہم میں نوجوانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے نکاح کو سادگی کے ساتھ کم خرچ میں انجام دیں اور کسی بیرونی دبا کو برداشت نہ کریں۔ شادی کی جس تقریب اور دعوت ولیمہ میں ان نکات کو ملحوظ خاطر رکھاجائے، ان کی تائید و ستائش کریں اور اس کے برخلاف عمل پر کھلی برہمی اور ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔ masoom.moradabadi@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں