یہ بات میڈیا کو پسند نہیں

 

خبر و نظر
یہ بات میڈیا کو پسند نہیں

ہندوستانی میڈیا کچھ عرصے سے اس بات پر خاصا پریشان ہے کہ پاکستان کی نئی نسل مذہب کی جانب راغب ہورہی ہے اور اِس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آرٹ اور کلچر کے مختلف میدانوں میں سرگرم رہے ہیں۔ اب وہاں سے نکل کر مذہبی شدت کی طرف آرہے ہیں۔ پچھلے دنوں میڈیا میں کئی تبصرے اور جائزے اِس عنوان کے تحت آچکے ہیں۔ اب /مارچ کے ٹائمس آف انڈیا نے پاکستانی موسیقاروں اور رقاصاں کے مذہبی رجحانات کا رونا رویا ہے۔ اس کے رپورٹر نے دہلی میں بیٹھ کر پاکستانی اخباروں کے حوالے سے خبربنائی ہے کہ پاکستان میں عقیدہ اور خوف گلوکاروں کو خاموش کررہے ہیں۔ نیز طالبان کی سرزمین پر موسیقی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے۔ رپورٹر کے نزدیک اس کی بڑی وجہ وہ دھمکیاں ہیں جو مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے فنکاروں کو مل رہی ہیں۔ لیکن جو مثالیں دی ہیں ان سے نہیں معلوم ہوتا کہ فنکاروں کے اندر یہ تبدیلی کسی قسم کے جبرودبا کے نتیجے میں رونما ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے شمال مغربی پاکستان میں، جہاں قبائلی علاقوں میں شرعی اقدار کی پابندی میں زیادہ شدت پائی جاتی ہے، خرافات اور لہو ولعب کے ویڈیو فروخت کرنے سے روکا جارہا ہو۔

رپورٹر کی مثالیں

لاہور کے سراج اپل نامی پاپ سنگر کے موبائل فون پر چند ماہ قبل تک کالرٹیون میں ایک ہندوستانی فلم کا گانا بجتا تھا۔ لیکن اب دعا کی آواز آتی ہے۔ اپل نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اب وہ پاپ میوزک کو ترک کررہا ہے اس لئے کہ اس کا مذہب اِس سے روکتا ہے۔  متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر پشتون گلوکارہ نازیہ اقبال نے جنوری میں ایک پروگرام کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ وہ اِس لائن کو چھوڑر ہی ہے اور اب ایک باعمل مسلم خاتون کے طور پر زندگی گزارے گی، وہ پاکستان میں اسلامی مدارس قائم کرنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔  علی حیدر نامی ایک اور سینئر پاپ سنگر نے پاپ میوزک ء ہی میں ترک کرکے مناجاتی گیت گانے شروع کردئے تھے۔ اب وہ صرف نعتیہ کلام گاتے ہیں، مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں رپورٹر نے بعض گلوکاروں اور موسیقاروں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہیں مذہبی انتہا پسندوں نے ہلاک کردیا ہے۔ لیکن ویب سائٹ پر مکمل رپورٹ دیکھنے سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ لوگ جبرودبا کے تحت ایسا کررہے ہیں۔ ہاں رپورٹر نے یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔
یہ ایک خاص ذہنیت ہے

دراصل ہمارے ملک کے میڈیا میں ایک خاص ذہنیت پائی جاتی ہے جس کا تعلق اسلامی اقدار سے بیزاری سے ہے۔ یہ لوگ کسی مسلم ملک میں بھی اسلامی رجحانات کا فروغ نہیں دیکھ سکتے۔ چند سال قبل سری لنکا کی مساجد میں نمازیوں کی کثرت اور عام جگہوں پر اسلامی اقدار کی پابندی دیکھ کر کچھ اخباروں نے شور مچایا تھا کہ وہاں اسلامی فنڈا منٹلزم بہت بڑھ رہا ہے۔ ابھی ابھی مالدیپ میں اسلامی اقدار کے حق میں وہاں کے مردوخواتین کا جوش دیکھ کر بھی یہی شور بلند ہوا تھا۔ خود پاکستان میں چند سال قبل کرکٹ کھلاڑیوں کے متشرع چہرے اور اسلامی میلانات دیکھ کر بھی یہی کہا گیا تھا۔ تاہم اس وقت بندوق برداروں کے جبرودبا والی بات کہنے کا موقع ڈھونڈے سے بھی نہیں ملا تھا یہ ذہنیت کچھ تو میڈیا پر قابض روایتی اسلام مخالف دماغوں کی پیداوار ہے اور کچھ اسلامی اقدار سے ناواقفیت اور بے خبری کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کے جن افراد کے بارے میں یہ باتیں کہی جارہی ہیں، اچھا ہے کہ وہی ان کا جواب دیں۔ پاکستانی ہائی کمیشن کو بھی ان رپورٹوں کا نوٹس لینا چاہئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں