یہ سال بھی آخر بیت گیا
کلام : عباس خان
یہ سال بھی آخر بیت گیا
کچھ ٹیسیں ، کچھ یادیں ، کچھ خواب لئے
چند کلیاں ، کچھ گلاب لئے
کچھ آنکھیں پُر آب لئے
کچھ اُجلے دن ، کچھ کالی راتیں
کچھ سچے دُکھ ، کچھ جھوٹی باتیں
کچھ تپتی رُتیں ، کچھ برساتیں
کسی یار عزیز کا دُکھ پیارا
کسی چھت پہ اُمیدوں کا تارا
جس پہ ہنستا تھا جگ سارا
اس شاعر نے کچھ لفظ لکھے
اُن میں تیری یاد کے سائے تھے
وہ لوگ بھی آخر لوٹ گئے
جو صداؤں پر آئے تھے
اُن ہنستے بستے لوگوں نے
میرے سارے دُکھ اپنائے تھے
لیکن نہ جانے کیوں ۔۔۔ ؟
میرے ہر کام کی تکمیل کے آخر میں
ہر چیز کیوں اُدھوری رہ جاتی ہے
ہنستے بستے لوگ چلے جاتے ہیں
آنکھ دیکھتی رہ جاتی ہے
یہ سال بھی گذر گیا
کچھ ٹیسیں ، کچھ یادیں ، کچھ خواب لئے ۔۔۔