یہ سب تمہارے لیے ہے یہ سب تمہارے نام

شاہنوازسواتی 
                                                                                                نے اپنے مجموعہ کلام کا نام تجویز کیا ہے 
                                                                                                     ہم تو چپ تھے ۔۔۔۔۔۔لیکن انتساب دیکھئے 
                               تمام شاعری میری یہ میرا سارا کلام 
                              یہ سب تمہارے  لیے  ہے یہ سب تمہارے نام
کس خوبصورتی سے دومصرعوں میں دریا بند کر دیا ۔آپ چاہیں جس کے نام سوچیں فٹ آئے گا یہ ہوتی ہے شاعری اس لےے تو سلطان سکون صاحب 
کہتے ہیں ۔کاش! میں بھی مختصر اور چھوٹے بحروں کی غزلوں میں شاہنواز سواتی ہوتا لیکن ضروری نہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔
شاہنواز سواتی کا تعارف سلطان سکون صاحب نے بڑا جاندار لکھا ہے ویسے بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہمارے اُس وقت کے دوست ہیں جب وہ شاعر تھے اور ہم شاعری سے ابتدائی کھیل کھیل رہے تھے ۔ہمیں ہمارے عزیز دوست اور رہنمائے ادب اسحاق آشفتہ نے فرمایا ۔گل جی !!!شاعری کا قدردان کوئی نہیں ادب میں نام چلتا ہے کلام نہیں اور واقعی!جب میں نام کےلئے میدانِ ادب میں اُترا ایک تالیف شائع ہوئی سوچ رُت کے نام سے 365شعراءپر مشتمل تو میں دنیائے اُردو ادب میں ایسا چمکا کہ بس !!!!
سوچ رت ہی کی تقریب رونمائی تھی سلطان سکون صاحب کیساتھ شاہنواز سواتی بھی تشریف لائے تھے شاعر تو میں تھا نہیں علامہ انیس لکھنوئی سے شاعری کی الف ب سیکھ رہا تھا اُس تقریب میں ایک مصرعہ میں ایسا پھنسا کہ جن کو پتہ نہیں تھا کہ میں شاعر نہیں ہوں اُن کو بھی پتہ چل گیا لیکن سلطان سکون صاحب اور شاہنواز سواتی نے فرمایا 
ابتدائی عشق میں ہوتا ہے یار ایسے!!!
شاہنواز سواتی میری ادبی شان ہیں قابل ذکر شناخت ہیں آج ان ہی کی حوصلہ افزائی دنیائے اُردو ادب میں میری پہچان ہے ۔شاہنواز سواتی کی شخصیت اور شاعری پر میں تو صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ شخصیت کے حوالے سے مہکتے گل ہیں اور شاعری میں احساس کائنات نمایاں ہے۔دیکھئے سلطان سکون کیا فرماتے ہیں 
شاہنواز سواتی کا تعلق مانسہرہ کے ایک گاﺅں”سفیدہ “سے ہے ۔گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد سے فارغ التحصیل ہو کر آپ نے 1968ءمیں حبیب بینک میں ملازمت اختیار کر لی اور ایک طویل عرصہ تک بینک سے وابستہ رہے ۔ ایبٹ آباد کی ادبی سرگرمیوں میں باقاعدہ حصہ لیتے رہے پھر کچھ عرصہ کراچی میں گزرا جہاں شاعروں اور ادبی تقریبات میں شرکت جاری رکھی ۔1987ءسے1992ءتک بینک کی طرف سے بیرون ملک پوسٹنگ پر مارلیشیس میںرہے جہاں اُردو حلقے کو متحرک اور فعال بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور ادبی تقاریب منعقد کرواکے وہاں کے لوگوں کے دلوں میں اُردو زبان کی مقبولیت اور محبوبیت پیدا کی وہاں کی وزارت تعلیم وثقافت نے 1990ءمیں ایک بین الاقوامی اُردو کانفرنس کا انعقاد بھی کیا ۔وزیر اعظم ،وزیر تعلیم وثقافت اور کئی دوسرے حکومتی اور ثقافتی اداروں نے اُردو کیلئے خدمات پر تعریفی اسناد سے نوازا ۔وطن واپسی پر بینک میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائر رہے بعد میں از خود ریٹائرمنٹ لے کر اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوگئے ان دنوں الخیر یونیورسٹی سے منسلک ہیں ۔
٭٭٭
انتخاب :۔ مجموعہ کلام : ہم تو چپ تھے  
کتنا مشکل سوال پوچھا ہے 
آپ نے دل کا حال پوچھا ہے 
فیصلہ کرکے پہلے، پھراُس نے 
مجھ سے میرا خیال پوچھا ہے 
….
محبت تخت بھی ہے وار بھی ہے 
محبت سہل بھی دشوار بھی ہے 
نواز اُس بے وفا سے کون پوچھے 
محبت کا کوئی معیار بھی ہے 
….
….
زیرِ لب بھی تو کچھ کہا ہوگا 
نامہ بر نے نہیں سنا ہوگا 
اک تسلی سی ہے مرے دل کوہے 
یاد اُس نے مجھے کیا ہوگا 
….
اُن کو جو ہم سے بدگمانی ہے 
ربط کی یہ بھی اک نشانی ہے 
کب ملوگے نواز سے آکر
آگ پانی میں کب لگانی ہے 
….
بلا کر اپنے گھر مجھ کو گیا ہے 
مگر رستے میں کانٹے بوگیا ہے 
نواز ایسے تو پہلے تم نہیں تھے 
اچانک اب تمہیں کیا ہوگیا ہے 
؛؛؛؛
….میرے سینے میں جو حرارت ہے 
تیری آنکھوں کی سب شرارت ہے 
لُٹ گیا دل تو کیا رہا باقی 
عاشقی دل سے ہی عبارت ہے 
….
لاج رکھی ہے ہم نے یاری کی 
اُس ستم گر کی پردہ داری کی 
حالِ دل کہہ رہا تھا وہ اپنا 
بات اُس نے مگر ہماری کی 
….
کب یہ آشفتہ خیالی جائے گی 
کب مری بے اعتدالی جائے گی 
دل اُسے دیتے تو ہو ،اُس سے نواز 
یہ امانت کب سنبھالی جائے گی 
….
 گل بخشالوی
اپنا تبصرہ لکھیں