پروفیسرخالد پرویز
یہ نبی آخرزماں حضرت محمد ۖکا درباررسالت ہے۔آپ صلی اللہ ۖ اپنے جانثاراورسرفروش صحابہ کے جھرمٹ میں یوں جلوہ افروز ہیں جیسے ستاروں کے اجتماع میں چاند تابندہ ہو۔تدریس و انصاف کے ساتھ ساتھ احسان کا سلسلہ جاری ہے کہ اتنے میں دو اشخاص ایک تنازعہ لے کر حاضرہوتے ہیں۔ان میں ایک یہودی ہے جبکہ دوسرا منافق۔
منصف اعظم حضرت محمد مصطفیٰ ۖ دونوں سے تنازعہ سے متعلق دلائل سنتے ہیں۔مختلف سوالات کرکے معاملے کے نتیجے تک پہنچتے ہیںاور فیصلہ یہودی کے حق میں صادرفرما دیتے ہیں۔
دربار رسالت سے انصاف کے تمام تر تقاضے پورے ہونے کے باوجود منافق نیا پینترا بدلتا ہے۔وہ یہودی سے کہتا ہے میں تو حضرت عمر فاروق کے پاس چلوں گا۔وہ جو فیصلہ کریں گے منظورکروں گا۔
یہودی اسے سمجھاتا ہے تم بھی عجیب شخص ہو ۔کوئی بڑی عدالت سے چھوٹی عدالت میں بھی فیصلہ لے کرجاتا ہے؟تم تو خود زبان سے سرورکونین ۖ کو اپنا سب سے بڑا سردارمانتے ہومگرعملی طورپرآپ صلی اللہ ۖ کے فیصلے کو نہیں مانتے۔اورحضرتعمرکے پاس جانے کے لیے بضد ہو۔تمہاری یہ منطق میری سمجھ میں نہیں آتی۔میرے خیال میں اب حضرت عمر کے پاس جانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔مگر منافق کہتاہے کہ وہ حضرت عمر کے پاس ہی جائے گا۔اور ان سے ہی تنازعہ کا فیصلہ کرائے گا۔آخریہودی تنگ آ کر منافق کے ساتھ چل پڑتا ہے۔دونوں حضرت عمر فاروق کے پاس پہنچتے ہیں۔منافق اس بات کا ذکر کرنے ہی لگتا ہے کہ یہودی کہتا ہے ۔جناب یہ سن لیجیے کہ ہم اس سے پہلے آنحضو ر ر ۖ سے فیصلہ لے آئے ہیں۔آپ ۖ نے میرے حق میں فیصلہ دی اہے مگر یہ شخص سردارانبیاء کے فیصلے پرمطمئن نہیںاور مجھے زبردستی آپ کے پاس لے آیا۔اور کہتا ہے حضر ت عمر جو فیصلہ کریں گے وہ مانوں گا۔
منافق سے حضر ت عمر کہتے ہیں اچھا تم میرا فیصلہ تسلیم کرو گے۔پھر ذراٹھہرو میں ابھی تمہارا فیصلہ کرتا ہوں۔یہ کہ کر حضرت عمر فاروق اندر تشریف لے جاتے ہیں۔باہر آتے ہیں تو ہاتھ میں ننگی تلوارہوتی ہے۔آپ آتے ہی چشم زدن میں منافق کی گردن یہ کر اڑ دیتے ہیں کہ جو سرورکونین حضرت مصطفیٰ ۖ کا فیصلہ نہ مانے اس کا فیصلہ یہی ہے۔
ہادی ء کون و مکاںحضرت محمد مصطفیٰ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آُ ۖ نے فرمایا حضرت عمر کی تلوار کبھی کسی مومن پر نہیں اٹھ سکتی۔
قرآن پاک میں ارشاد ربّ العزت ہے
تیرے رب کی قسم ! یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک تمہیں اے رسول اپنا حاکم نہ مانیں اور تمہارا فیصلہ قبول نہ کریں۔