گل بخشالوی
جون کی تپتی دوپہر میں دونوں بھائی دس سالہ رحمان گل اور پانچ سالہ عدنان گل سکول سے گھر آئے ماں (پلوشہ) نے دونوں کے کندھوں سے کتابوں کے بھاری بھر کم بستے لیتے ہوئے چار پائی پر رکھ دئےے ۔سائے میں پڑے ہوئے مٹی کے سرخ گھڑے سے ٹھنڈا پانی پلایا اور خوبصورت گوٹا کناری والی پگھی جھلتے ہوئے اُن کے چہروں پرسے پسینہ اپنے دوپٹے کے پَلوسے خشک کرنے لگی ۔
سکول گھر سے کوئی دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا گاﺅں میں بجلی تو تھی لیکن شدت پسندوں نے گاﺅں سے باہر بجلی کے ٹرانسفارمر کو دھماکے سے اُڑا دیا تھا جس کی وجہ سے گاﺅں بھر کے لوگ بجلی سے محروم تھے سکولوں میں پڑھائی کم اور کتابوں کے بستے تو بڑے ہوتے ہی ہیں ۔دونوں بھائی کتابوں کے بوجھ سے ہلکے ہوئے گھڑے کا پانی پی کر کچھ ہوش آیا تو بھوک چمک اُٹھی رحمان گل نے کہا ماں بھوک لگی ہے ،پلوشہ اُٹھی تپتی دوپہر میں تندور پر مکئی کی پکائی ہوئی روٹی پانی میں اُبلے ہوئے سرسوں کے ساگ کےساتھ اُن کے سامنے لاکر رکھ دی تو عدنان گل نے پوچھا ماں !دادی ماں کہاں ہے ؟ پڑوس میں بیمار پرسی کیلئے گئی ہیں !ماں نے جواب دیا عدنان گل نے چمک کر کہا پھر تو اچھا ہے آ ج تو میں پراٹھا ہی کھاﺅں گا ماں نے مسکراتے ہوئے کہا بیٹا تمہاری دادی ماں گھی کا ڈبہ آٹے کے کنستر میں رکھ کر تالالگا کر گئی ہیں ۔ میں تو پراٹھا ہی کھاﺅں گا وہ اُٹھا اور کمرے میں سے سرسوں کے تیل کی بوتل لا کر ماں کو دیتے ہوئے بولا ٹھیک ہے مجھے تیل میں پراٹھا بنا کر دو ۔ماں نے عدنان کی خواہش اور ضد کے آگے ہتھیار ڈال دئےے وہ اُٹھی اور رسوئی میں سلگتے ہوئے گوبر کے اُوپلوں کو پھونک پھونک کر جلانے کے بعد چولہے پر توا رکھا اور بیٹے کیلئے سرسوں کے تیل میں پراٹھا پکا کر لے آئی تینوں ماں بیٹے چٹائی پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے اسی لمحے بچوں کی دادی گلشنہ آگئی اُس نے بچوں کے سامنے پراٹھا دیکھا تو جیسے آگ بگولا ہوگئیں ۔
ہاں ہاں !میں گھر میں نہ ہوں تو تم عیاشی کیا کرو میں گھر کے خرچے کیلئے پریشان ہوں اور تم ماں بیٹے پراٹھے کھارہے ہو میں نے تو کنستر کو تالا لگایا تھا تم گھی کہاں سے لے آئی ،گلشنہ بہو پر برس پڑیں ۔ماں یہ گھی میں نہیں سرسوں کے تیل میں پکایا ہے عدنان ضد کر رہا تھا کہ میں پراٹھا ہی کھاﺅں گا پلوشہ نے جواب دیا
،گلشنہ تو جیسے پاگل ہوگئی تھی کہنے لگی سرسوں کا تیل تو اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی بدبخت،گلشنہ کے منہ میں جو آیا بولے جارہی تھی دونوں بچوں کی آنکھیں ماں کے چہرے پر جمی تھیں جس کی آنکھوں سے خاموش آنسو اُس کے چہرے پر سے ….دکھ کی دھول دھورہے تھے بچوں کے گلے جیسے خشک ہوگئے تھے نوالا حلق سے اُتر نے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔اُن کی بھوک مرگئی تھی پراٹھے کی چنگیر ایک طرف رکھ دی ،عدنان خاموشی سے چٹائی پر سر کے نیچے بازو رکھ کر لیٹ گیا رحمان گل اپنے چھوٹے بھائی عدنان کے معصوم چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو نہ تم پراٹھے کیلئے ضد کرتے اور نہ ماں کی بے عزتی ہوتی ،عدنان بھی جیسے اپنی ضد اور کےے پر پشیمان تھا اور گلشنہ ،پلوشہ سے کوئی جواب نہ سننے کے باوجود بولے جارہی تھی رحمان گل خاموشی سے اُٹھ کر گھر سے باہر چلا گیا ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی آئے روز کا دکھ تھا گلشنہ آئے روز کسی نہ کسی بات کا بھتنگڑ بناکر اپنی سگی بھانجی پلوشہ جو اُس کی اکلوتی بہو تھی کی انا کو مجروح کرتی اور پلوشہ خاموشی سے ماسی کی زہر بھری باتیںسن کر زندگی کے جہنم میں جی رہی تھی ۔اپنے بچوں اور شوہر جمال خان کیلئے ،جمال خان سے پلوشہ کو کوئی شکایت نہیں تھی اس لےے وہ ہر دکھ کو خاموشی سے پی جاتی اور ویسے بھی تو گھر کی دہلیز کے باہر وہ صرف مرنے کے بعد ہی تو قبر میں جا سکتی تھی دوسرا تو کوئی راستہ نہیں تھا گلشنہ بول بول کر تھک گئی تو خاموش ہوکر بڑبڑاتے ہوئے چارپائی پر لیٹ گئی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی،پلوشہ نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے گاﺅں کا ڈاکیا باباکریم خان تھا کہنے لگا پلوشہ بیٹی تمہارے جمال کا خط اور منی آرڈر آیا ہے ۔پلوشہ باباکریم خان کو گھر کے اندر لے آئی گلشنہ منی آرڈر کی رقم وصول کرنے لگی اور پلوشہ اُ س کیلئے گھڑے سے ٹھنڈا پانی لے آئی ،منی آرڈر کےساتھ آیا ہوا خط بابا کریم خان پڑھ کر سنانے لگا ۔
ماں جی !اسلام علیکم میں خیر یت سے ہوں اور اُمید ہے آپ بھی سب خیریت سے ہوں گے ۔ماں جی!میرے لےے دعا کرنا آپ جانتی ہیں کہ میں شدت پسندوں کے خلاف پاک فوج میں حالت ِ جنگ میں ہوں قومی دفاع کیلئے پاک فوج اپنے وطن کی سرحدوں کا دفاع کر رہی ہے جبکہ شدت پسند جو کہ ایک باقاعدہ فوج ہے اپنے کسی مذموم مقاصد کے حصول کیلئے لڑ رہے ہیں ۔ہم جانتے ہیں ماں جی افغانستان نے صوبہ سرحد کو فتح کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کی تھی لیکن سوات کے غیور لوگوں نے اُن کا بھر پور مقابلہ کیا ماں جی یہ ڈرون حملے پہلے بھی ہوتے تھے ۔سوات کے مجاہد چمنی خان نے انگریزوں کا جہاز اپنی رائفل سے فائر کر کے گرایا تھا انگریز اُس وقت تو سوات پر قبضہ کی خواہش پوری نہ کر سکے لیکن اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سوات کے دشمنوںنے طویل انتظار کیا او رآج باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہمارا مقابلہ کر رہے ہیں ماں جی ہمارا مقابلہ چھاپہ مار شدت پسندوں سے ہے یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے ہم اپنے دیس میں دیس دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں لگتا ہے یہ لڑائی جلدی ختم ہونے والی نہیں ہے اور مستقبل قریب میں ہماری واپسی کاکوئی امکان بھی نہیں ہے ۔
میں جانتا ہوں کہ میر ی تنخواہ سے حالیہ مہنگائی میں گھر کے اخراجات نہیں چل سکتے اس کے باوجود اگر ہوسکے تو گلابوکی کچھ نہ کچھ مدد کیا کریں ۔میری ایک ہی تو بہن ہے جب سے بہنوئی کمال خان ساتھ والے گاﺅں میں شدت پسندوں کےساتھ لڑائی میں شہید ہوئے ہیں میں اپنی بہن اور بھانجے غنی خان کیلئے پریشان رہتا ہوں ۔ گلابو پلوشہ کی نند اور دونوں اچھی دوست بھی ہیں میرے لےے پلوشہ کا رشتہ تو گلابو ہی کی ضد تھی میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ لوگوں کی یاد نہیں آتی لیکن قومی دفاع کو خونی رشتوں کی خواہش پر قربان نہیں کیا جاسکتا میں جانتا ہوں ،پلوشہ کفایت شعار بیوی ہے آپ کا خیال رکھتی ہوگی اور رکھے گی کیوں نہیں آپ کی سگی بھانجی ہی تو ہے اور اب تو آپ کے علاوہ اُس کاکوئی ہے بھی نہیں بے چاری کا پورا خاندان تو کشمیر میں آئے ہوے زلزلے میں پہلے ہی دفن ہو چکا ہے
یہ سنتے ہی پلوشہ بِلک بِلک کر رونے لگی تو عدنان ماں سے لپٹ کر رونے لگا بابا کریم کی آنکھیں بھیگ گئیں اُس نے پگھڑی کے پَلو سے آنکھیں خشک کر تے ہوئے خط کی آخری سطر پڑھتے ہوئے کہا ،آگے لکھا ہے میر ی طرف سے پلوشہ کو سلام اور بچوں کو بہت بہت پیار ،خدا حافظ ،آپ کا بیٹا جمال خان ۔
ڈاکیا بابا کریم کے جانے کے بعد گھر میں خاموشی سی چھاگئی لیکن اس خاموشی کو دروازے پر کسی کی دستک نے توڑ دیا ۔پلوشہ نے بوجھل قدموں سے دروازہ کھولا تو سامنے اُس کی بڑی ماسی شگفتہ کھڑی تھی ،پلوشہ نے ماسی شگفتہ کے پاﺅں چھوتے ہوئے کہا آﺅ ماسی خیر تو ہے اتنی گرمی میں آپ آئیں شگفتہ نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی چھوٹی بہن گلشنہ سے گلے لگ کر روتے ہوئے کہنے لگی گلشنے تمہاری بیٹی گلابو نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے !
کیا ؟پلوشہ بے ساختہ بول اُٹھی ۔ گلشنہ تو جیسے گونگی ہوگئی پلوشہ کہنے لگی ماسی !گلابو ایسی نہیں ہوسکتی وہ ایسا نہیں کر سکتی آپ نے تو اُسے بیٹی سے زیادہ عزیز رکھا ہے یہ سن کر شگفتہ پلوشہ پر برس پڑی تو نے بھی اپنی ساس کو ماں سے زیادہ عزیز رکھا ہے لیکن ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی اور نہ بہو بیٹی ،کل ہی اُس کو اپنے شوہر کی پہلی پنشن ملی تو اُس کی آنکھیں بدل گئیں ۔اُس نے غنی خان کیلئے دیسی گھی میں پراٹھا پکایا تو میں نے غلطی سے کہہ دیا کہ بیٹا مہنگائی ہے ذراگھی کم استعمال کرو میرااتناکہنا تھا کہ گلابوآگ بگولا ہوگئی کہنے لگی میرے شوہر کی کمائی ہے اور غنی خان اُسی کا بیٹا ہے حرام کی پیدائش نہیں ہے میں گھر کی ہر ضرورت کو جانتی ہوں تمہیں ساس بننے کی ضرورت نہیں ،ماں بن کر رہنا ہے تو یہ تیرے بیٹے کا گھر ہے ورنہ نکل جاﺅ اس گھر سے
گلشنہ اپنی بڑی بہن شگفتہ کی باتیں سن کر پریشان ہوگئیں ۔پلوشہ بولی میں نہیں مانتی کہ گلابو ایسا کر سکتی ہے شگفتہ پلوشہ پر برس پڑی تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں پلوشہ خاموش ہوگئی گلشنہ اپنی بڑی بہن کیساتھ اپنی بیٹی کا برتاﺅدیکھ کر ڈر گئی اُس نے دو پٹے کے پَلو سے منی آرڈر کی رقم اور گھر کی چابیاں گلشنہ کو دیتے ہوئے کہا بیٹا یہ میرے عمل کی سز ا ہے جو میری بڑی بہن کو ملی ہے میں معافی چاہتی ہوں یہ تمہارا گھر ہے اور میں تمہاری ساس نہیں ماں ہوں ۔پلوشے نے رقم اور چابیاں سسو ماں کو واپس دیتے ہوئے کہا نہیں ماں ایسے نہیں ہوگاآپ کی زندگی تک میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی میں ماسی شگفتہ کیساتھ جاکر گلابو سے پوچھتی ہوں کہ اُس نے ایسا کیوں کیا پلوشہ نے ماسی شگفتہ کو چادر دیتے ہوئے کہا آﺅ !ماسی چلتے ہیں۔عدنان تم دادی ماں کے پاس بیٹھو میں ابھی آئی!
دونوں نے راستے میں کوئی بات نہیں کی انہوں نے گھر جاکر دروازے پر دستک دی رحمان گل نے دروازہ کھولا پلوشہ نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور سیدھی گلابو کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی گلابو ،ماسی شگفتہ جوکہہ رہی ہے کیا واقعی تم نے ایسا کیا ؟ گلابو نے کہا ،شگفتہ ماں کیا کہہ رہی ہیں ،
شگفتہ نے ہنستے ہوئے کہا میں کہہ رہی ہوں گلابو تمہاری ماں گلشنہ اپنے کل سے ڈر گئی ہیں ۔گلابو اور پلوشہ نے شگفتہ ماسی کی طرف دیکھتے ہوئے یک زبان ہو کر کہا ،کیا ؟۔
رحمان گل نے کہا میں بتاتا ہوں ماں یہ تو دادی ماں کوڈرانے کیلئے ایک ڈرامہ تھا جو مامی اور بڑی ماں نے بنا یا یہ سن کر پلوشہ نے شگفتہ ماسی کے پاﺅں چھوتے ہوئے گلابو کو گلے لگالیا اور مسرت کے آنسو اُس کے گلاب گالوں پر شبنم کی طرح چمکنے لگے ۔
گلابو نے کہا ہاں پلوشے ،رحمان گل نے مجھے سب کچھ بتایا دیا ہے یہ پہلے بھی ہمیں آکر بتاتا رہتا تھا کہ تمہارے ساتھ میری امی کا سلوک کیسا ہے لیکن آج پراٹھے پر آپ کی توہین سے پریشان ہوگئی اس لےے ماں جی کےساتھ مل کر یہ کھیل کھیلا شکرہے ماں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے کہ بہو ،بیٹی بن سکتی ہے اگر ساس کو یہ احساس ہو کہ اُس کی بہو بھی کسی کی بیٹی ہے اور ساس بننے سے پہلے وہ بھی کسی کی بہو تھیں ،
خوشی کے ان لمحوں میں کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد پلوشہ رحمان گل کو لے کر گھر جانے لگیں تو گلابو نے کہا پلوشے یہ ڈرامہ صرف اس گھر کی چاردیواری تک محدود رہے گا
میں تو پورے گاﺅں کو بتاﺅں گا رحمان گل بولا اور دوڑتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا ۔پلوشہ رحمان گل کیساتھ گھرآئی تو عدنان گل دادی ماں کیساتھ بیٹھا انڈے کیساتھ پراٹھا کھارہا تھا
رحمان گل نے کہا دادی ماں میرا پراٹھا ،دادی ماں نے اُسے پیار کرتے ہوئے کہا ،شیطان تو کدھر گیا تھا تیرے لےے بنایا ہے یہ لو تیرا پراٹھا۔