کلام : شعاعِ نور
یہ کس طرح کے وجود سے آج مل رہی ہوں
ٹھٹھرتے منظر میں برف کی سل
وجود میرا
نہ کوئی حدت نہ کوئی شدت
نہ کوئی آہٹ نہ کوئی دستک
یہ بے خبر سا وجود میرا
وہ کیسے لمحے کی ابتدا تھی
یہ کیسے لمحے کی انتہا تھی
کیا میری تقدیر برف کی سل
تو برف ہے کیا وجود میرا
تو برف ہے کیا قیام میرا
تو برف ہی ہے سجود میرا
یہ کیا معمہ ہے سوچتی یوں
میں ایسے لمحات کھوجتی ہوں
کہ جن کے ہونے سے برف ہوں میں
اگر یہ سچ ہے کہ میری تکمیل تھی حرارت
تو پھر وہ لمحات کون سے تھے
یہ سرد رشتوں کے بے ثمر پھل
نصیب میرا بنے ہوئے ہیں
مری حرارت کو سلب کرنےمیں
کتنے رشتے جو معتبر تھے کھڑے ہوئے ہیں
میں سرد خانے کی لاش ہوں جو
یہ سوچ کر برف کی سلوں پر پڑی ہوئی ہے
کہ برف خانہ ہے میرا مدفن
مگر رہائی کا کوئی رستہ کہیں تو ہوگا
کہیں تو ہوگی کوئی حرارت
اب ایک پہلو میں لیٹے لیٹے میں تھک چکی ہوں
مری رگوں میں جو منجمد ہےسیال شاید پگھل ہی جائے
کہ کوئی رستہ نکل ہی آئے
میں اپنے تابوت سے نکلنے کی جستجو میں لگی ہوئی ہوں
یہ کون ہے جو پکارتا ہے
ہے کوئی طاقت جگا رہی ہے
پکڑ کے مجھ کو اٹھا رہی یے
جو کہہ رہی ہے
کہ برف کی سل پہ دل کو رکھ دو
عجیب حیرت کدہ ہے یارو
جو برف کی سل پہ دل کو رکھا
تو سارے منظر پگھل رہے ہیں
یہ آتش دل سلگ رہی ہے
یہ برف کی سل پگھل رہی ہے
وہ سرد رشتوں کے سارے منظر کہاں گئے ہیں
جو میری طاقت مری حرارت
کو سلب کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے
مری حرارت تو میرا دل ہے
میری صداقت تو میرا دل ہے
اسی سے قائم وجود ہستی
مری حرارت مرا خدا ہے
جو میرے دل میں اتر رہا ہے
مری بصیرت
مری حرارت
مری محبت
وہ میری طاقت
وہ آب زم زم سا پہلا آنسو
جو میری آنکھوں سے گر رہا ہے
مرا تخیل اک ایسی جنت دکھا رہا ہے
جہاں پہ سورج چمک رہا ہے
یقیں کا منظر سنور رہا ہے
ہر ایک لمحہ نکھر رہا ہے
مری حرارت مرا خدا ہے
جو میرے دل میں اتر رہا ہے
کیا کہنے شعاع نور اس نظم کا ہر لفظ با معنی اور دل میں اتر جانے والا ہے۔دل کو گرمانے والی نظم ہے۔