یہ کون سی دنیا ہے؟

یہ کون سی دنیا ہے؟

یہ کون سی دنیا ہے؟

Se bildet i e-posten

ایم ودودساجد

کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا لکھوں۔اتنے موضوعات ہیں لیکن کسی ایک پر بھی قلم اٹھانے کو جی نہیں چاہتا۔سچ تو یہ ہے کہ ہاتھ کانپ رہے ہیں اور روح تڑپی ہوئی ہے۔دل بے چین اور ذہن ماف ہے۔یہ پورا ہفتہ کرب میں گزرگیا ہے۔ ان درندوں کا کیا کیا جائے جنہوں نے اس بچی کی زندگی تباہ کرڈالی جو اپنے ارمانوں کی دنیا کی طرف بڑھ رہی تھی۔انہیں انسان کہنے اور سمجھنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن یہ سچ ہے کہ وہ اسی مکروہ دنیا کے انسان ہیں۔
دسمبر کو دہلی کی سڑکوں پر اجتماعی عصمت ریزی کاجو دردناک اور وحشتناک واقعہ ہوااس نے سب کو ہلا ڈالا۔یہ ہم کو ن سی دنیا میں رہ رہے ہیں؟ہر شخص مجسم سوال بناہوا ہے ۔مگر کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہے۔ان حکمرانوں کے پاس بھی نہیں جنہوں نے رشیوں منیوں اور صوفی سنتوں کی اس سرزمین کو وحشتوں کی سرزمین بنا ڈالا۔اس موقع پر بہت کچھ یاد آرہا ہے لیکن کم پر اکتفا کرنا بہتر ہے۔دہلی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔خواتین پر مختلف قسم کے حملے یہاں ہر روز ہوتے ہیں۔شاید دوسری مصروف ترین راجدھانیوں سے بھی زیادہ۔لہذا یہاں خواتین کمیشن دہلی حکومت پولس اور دوسری ایجنسیوں کے درمیان ہر بڑے واقعہ کے بعد ایک بڑی میٹنگ ہوتی ہے۔ طویل بحثیں ہوتی ہیں۔ہر ایجنسی ایک دوسرے پر الزام دھرتی ہے۔میٹنگ ختم ہوتی ہے تو واقعہ کی شدت اور کربناکی بھی ماند پڑجاتی ہے۔کوئی نہیں پوچھتا کہ میٹنگ میں جو فیصلے ہوئے تھے ان پر عمل بھی ہوا ہے یا نہیں؟پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا ہے کہ عصمت دری کے اس واقعہ پر ضرورت سے زیادہ واویلا ہورہا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہیں جن پر بحث کی ضرورت ہے۔انہوں نے یاد دلایا ہے کہ ہندوستان میں اب تک ڈھائی لاکھ کسان خودکشی کرچکے ہیں۔مگر کیا ایسی کوئی مرکزی پالیسی وضع کرلی گئی ہے کہ جس کی مددسے کوئی کسان زرعی نقصان اور مالی تنگی کے سبب خود کشی نہ کرے؟شاید نہیں۔ پچھلے موسم سرما میں دہلی میں خواتین پر تشدد کے واقعات کے خلاف منعقد ایک میٹنگ میں دہلی کی وزیر اعلیخواتین کمیشن کی صدراور دہلی پولس کمشنر کے درمیان نوک جھونک ہوگئی تھی۔اس وقت کے پولس کمشنر نے میٹنگ میں کہا تھا کہ لڑکیوں کوبھی چاہئے کہ اپنے لباس اور وضع قطع کو اخلاقیات کا پابند بنائیں دیر رات کے گشت سے بچیں اور والدین کے بغیرسیر وتفریح کے مقامات پر نہ جائیں۔ اس پر وزیر اعلی سمیت دوسری تمام عہدیدار خواتین نے پولس کمشنر کو وہ کھری کھوٹی سنائی تھی کہ الامان الحفیظ۔
دہرہ دون کی اس بچی پر جنسی تشدد کے خلاف دہلی میں ہر روز مظاہرے ہورہے ہیں۔اس بدنصیب کی آبرو کے احترام اور اس کے تکلیف دہ شب وروز کی روشنی میں ہم اس کی غیرمحتاط روش پر کوئی سوال نہیں اٹھائیں گے۔لیکن ذرا دیکھئے کہ مظاہرہ میں شریک لڑکیاں اور خواتین کس لباس اور کس وضع قطع میں ہیں۔یہ امیر کبیر اور مہذب گھرانوں کی صنف ناز ک ہیں ۔ان کے ہاتھوں میں جو بینر ہیں ان پر لکھا ہے کہ نظریں تیری خراب اور پردہ میں کروں؟اس کے علاوہ ایسے ایسے نعرے اور طعنے درج ہیں کہ جن کو نقل کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔اور ہاں پولس کمشنر کے مشورہ کے خلاف جو مظاہرہ ہوا تھا اس میں تختیوں پر لکھا تھا کہ طالبانی مشورہ نہیں چلے گا نہیں چلے گا۔اسی طرح ایک اور مظاہرہ انڈیا گیٹ پر ہوا تھا جس میں شریک لڑکیوں اور خواتین نے باقاعدہ اعلان کرکے آدھے ادھورے کپڑے زیب تن کئے تھے۔کوشش کی تھی کہ جسم کا زیادہ سے زیادہ حصہ نظر آئے۔بینروں پر لکھا تھا کہ اپنی نظریں ٹھیک رکھ مجھے نہ دیکھ۔یہ سب کیا ہے؟کیا ملک کو اخلاقیات کا پابند اسی طرح بنایا جاسکتا ہے ؟اور کیا اسی طرح خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور جرائم میں کمی لائی جاسکتی ہے؟قومی خواتین کمیشن کی چیرپرسن نے ایک مرتبہ خواتین کو احتیاط کا مشورہ دے دیا تھا۔ان کے خلاف ہنگامہ شروع ہوا تو وہ اپنے مشورہ سے منحرف ہوگئیں۔میں نے کم وبیش سال قبل ایک خاتون کمیونسٹ لیڈر کا انٹرویو کیا تھا۔دوران گفتگو خواتین پر جنسی تشدد کی روک تھام جیسے اشو پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے پوچھاتھا کہ عرب ملکوں میں اس طرح کے واقعات کیوں نہیں ہوتے؟متعددغیر مسلم لیڈربھی اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔خود مہاتما گاندھی نے جرائمبدعنوانی اور دوسری سماجی خرابیوں پر قابو پانے کیلئے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے حسن انتظام کو پسند کیا تھا۔اب تازہ واقعہ میں بھی یہاں متعدد لیڈروں نے مرتکبین کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ نے تو ایوان میں بحث کے دوران مطالبہ کیا ہے کہ مرتکبین کواسلامی قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

میں نے مذکورہ بالا سطور میں بینروں اور مظاہروں کا جو ہلکا سا ذکر کیا ہے در اصل اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہندوستان کے آزاداور نام نہاد روشن خیال طبقات کے ذہنوں میں اسلام  اسلامی شریعت اور مسلمانوں کے تعلق سے کیسی نفرت بیٹھی ہوئی ہے کہ انہیں ہر اخلاقی مشورہ میں اسلام اور مسلمان ہی نظر آتے ہیں۔پچھلے دنوں اسی طرح کے ایک واقعہ میں ملک کی ایک ذیلی عدالت نے ضمنا یہ ذکر کردیا کہ ایسے واقعات پر قابوپانے کیلئے عرب ممالک میں جاری تعزیراتی قوانین کامطالعہ کرکے نئے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ معاملہ ملک کی ایک ہائی کورٹ میں پہنچا ۔فاضل عدالت نے کہا کہ ہمیں دوسرے ملکوں اور خاص طورپر عرب ملکوں سے قوانین درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آئیے مظاہروں میں استعمال کئے جانے والے نعروں کی طرف لوٹتے ہیں۔کیا اس ملک میں پچاس سال پہلے بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔نیم ملبوس لڑکیاں اور خواتین کیا اسی طر ح کے خیالات کا اظہار برسرعام کیا کرتی تھیں؟ہریانہ کے ایک کالج نے طالبات کے جینس پہننے پر پابندی عائد کی تو وہاں کی پرنسپل کا جینا حرام کردیا گیا۔حکومت نے مغربی تہذیب کی محبت میں مادیت پرستی عریانیت اور اخلاقی پستی کے وہ نمونے عام کئے ہیں کہ ایسے واقعات سے بچنا ممکن ہی نہیں رہا۔پولس کہتی ہے کہ دہرہ دون کی اس بچی کوچلتی بس کے اندر جن درندوں نے برباد کیا ہے وہ سب شراب پئے ہوئے تھے۔نصف سے زائد ایکسیڈنٹ شراب پی کر گاڑی چلانے کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔شراب اور ڈرائیونگ کے یکجا ہونے کے خلاف دہلی پولس نے ایک عرصہ سے مہم چلارکھی ہے قتل وغارت گری اور لوٹ مار کے واقعات میں بھی شراب نوشی کا دخل ہوتا ہے۔تو سوال یہ ہے کہ اس منحوس شے کی پیداوار اور اس کی خرید وفروخت پر مکمل پابندی کیوں نہیں لگادی جاتی؟جواب یہ ہے کہ حکومتیں سیاستداں اور افسران اس کاروبار سے اربوں روپے کماتے ہیں۔اس لئے اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔دہلی کی وزیر اعلی اور ملک کے وزیر داخلہ ایسے واقعات سے نپٹنے کیلئے دس جتن کرنے میں مصروف ہیں مگر کسی نے بھی شراب پر پابندی کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔شاید ہندوستان میں شراب پر اس لئے بھی پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ اسلام نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

2 تبصرے ”یہ کون سی دنیا ہے؟

  1. سلام مسنون
    میں نے آپ کی ادارت میں قائم اردو فلک کا طائرانہ مشاہدہ کیا۔وقت ملتے ہی انشا اللہ تفصیلی مطالعہ کروں گا۔
    مجھے ایسا لگا کہ شاید مضمون کا آدھا حصہ ہی شائع ہوسکا ہے۔اس کے علاوہ ایک عرض اور ہے ۔میری ایک تصویر جو اب تمام مضامین کے ساتھ شائع ہوتی ہے دوسری ہے۔گوکہ وہ اتنی اچھی نہیں ہے لیکن مجھے اس لئے اچھی لگتی ہے کہ وہ تصویر اس وقت لی گئی تھی جب میں مصر کے الاقصر میں دریائے نیل کے ساحل پر بیٹھا تھا۔اس تصویر کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک بڑے فنکار نے کھینچی تھی۔میں آپ کو بھیج رہاں ہوں۔
    بلاشبہ ناروے میں آپ اردو اور اردو صحافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یہ سب سے زیادہ اہم بات ہے۔اردو کی اس عظیم خدمت پر مبارکباد قبول فرمائیں۔
    خاکسار
    ایم ودودساجد

  2. لسلام و علیئکم ودود ساجد صاحب
    سائٹ وزٹ کرنے کا شکریہ۔میں نے آپکی رائے اور تصویر محفوظ کر لی ہیں ۔آپ اپنے آرٹیکلز اور قیمتی آراء آئندہ بھی اس سائٹ کے لیے ارسال کرتے رہیں ہمیں خوشی ہو گی۔
    شکریہ
    شازیہ عندلیب

اپنا تبصرہ لکھیں