افسانہ نگار
شازیہ عندلیب
پندرہ سالہ لقمان تفتیشی انداز میں اپنے پاپا سے پوچھ رہا تھا۔
پاپا ایک بات تو بتائیں۔ جی بیٹا پوچھو برلاس خان نے بڑے پیار سے اپنے بیٹے سے کہا۔آپ تو کہہ رہے تھے کہ ہمارے گھر دادا دادی آئیں گے ملنے مگر۔۔۔ہاں ہاں کہو بیٹا کیا کہنا چاہتے ہو؟ ہاں تو پھر یہ دادا دادی ہی تھے۔برلاس خان نے بیٹے کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔مگر لقمان کے چہرے پر بدستور بے یقینی کے سائے لہرا رہے تھے۔اس نے تفتیشی انداز میں پوچھا یہ تو جوان تھے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے دادا دادی ہیں۔ایسے ہوتے ہیں کیا دادا دادی؟ بیٹے نے شکائیتی انداز میں کہا۔آپ اصل بات بتائیں پاپا۔
بارہ سالہ زیشان بھی پاس ہی بیٹھا موبائل پہ گیم کھیل رہا تھا وہ بھی دونوں باپ بیٹا کی گفتتگو غور سے سن رہا تھا۔ بظاہر وہ وڈیو گیم کھیل رہا تھا مگر اس کے کان اپنے بڑے بھائی اور باپ کی گفتگوکی جانب ہی لگے ہوئے تھے۔وہ بھی ان کے پاس ہی آ کے بیٹھ گیا۔
کچھ روز پہلے ڈنمارک سے جو دادا دادی آئے تھے وہ ان کے گھر کئی روز تک ٹھہرے تھے۔ان کے ساتھ بچوں نے خوب انجوائے کیا تھا خوب گھومے پھرے اور کھیل کھیلے۔دادی جس کی زبان تو ڈینش تھی مگر وہ انگلش بھی بہت اچھی بول لیتی تھی۔ دادا ابو بھی بہت خوش مزاج اور ماڈرن تھے۔بھورے بالوں اور صاف رنگت والے الیاس پاشا اپنی خوش لباسی اور خوش مزاجی کی وجہ سے جلد ہی بچوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔مگر اس وقت تو بچوں کو کوئی خیال نہیں آیا تھا کہ یہ کیسے دادا ادی ہیں؟۔۔۔
گو کہ انہیں پہلی نظر دیکھنے کے بعد انہیں حیرانی ضرور ہوئی تھی کہ یہ مہمان جنہیں پاپا ہمارے دادا دادی کہ رہے ہیں یہ دیکھنے میں تو بالکل لگتے نہیں۔دادی نہ صرف انگلش بالکل ٹھیک بول رہی تھی بلکہ یہ بھی کہ رہی تھی کہ وہ بیڈ منٹن بھی کھیلتی ہے۔ اور یہ کہ اس مرتبہ وقت کم ہے اس لیے کھیل نہیں سکتی مگر اگلی مرتبہ وہ بیڈ منٹن ضرور کھیلے گی بچوں کے ساتھ۔ہان البتہ دادی نے جو انعامی کوئز کا سوال کیا تھا اس میں بہت مزہ آیا تھا اور بچوں نے اس میں بڑھ چڑھ ککوئز کا سوال بھی بڑا دلچسپ تھا۔۔۔۔۔۔
سوال یہ تھا کہ الیاس پاشا انکے دادا اپنے بڑے بھائی کی شادی میں کیوں شریک نہیں ہوئے تھے؟
لقمان عرفان اور رامین تینوں بہن بھائیوں نے بڑھ چڑھ کر سوالات کے جوابات دیے مگر کسی کا جواب درست نہ ہوا چھوٹے بھائی کا جواب البتہ قریب قریب درست تھا۔اسی لیے انعام بھی اسی نے جیتا۔
یعنی دادا ابو چھوٹے ہوں گے اس لیے بڑے دادا ابو کی شادی میں شامل نہیں ہو سکے۔مگر اصل جواب سن کر سب بچے حیران رہ گئے۔درست جواب یہ تھا کہ چھوٹے دادا ابو بڑے دادا ابو کی شادی پر پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔بلکہ چھوٹے دادا تو اپنے بڑے بھتیجے سے بھی عمر میں چھوٹے ہیں۔یہ اور بھی حیرانی کی بات تھی چھوٹے دادا ابو بڑے چچا سے بھی عمر میں چھوٹے ہیں۔مگر پھر بھی بچوں کو ان باتوں اور شتوں کو سمجھنا اتنا آسان نہیں تھا۔نہ کسی نے انہیں سمجھایا اور نہ وہ سمجھے۔بلکہ وہ تو دادا دادی کے جاتے ہی اپنے کھلونوں اور کھیلوں میں مصروف ہو گئے انکے والدین نے اپنے بچوں کی تربیت کا ایسا شیڈول بنایا ہوا تھا کہ انہیں پڑھائی اور کھیل کے سوا کسی تیسرے فالتو کام کی فرصت نہیں تھی۔نماز اور سپارہ البتہ باقائدگی سے پڑھتے تھے۔کیونکہ ان کے والدین اپنے بچوں کو شعوری طور پر تربیت دے رہے تھے۔وہ نہ صرف انکی ہر ضرورت کا خیال رکھتے بلکہ انکے دوستوں اور بدلتے رجحانات اور ترجیحات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ بچے پڑھائی میں تو لائق تھے ہی مگر اسکے ساتھ ساتھ ان میں سماجی تعلقات اور چھوٹے بڑوں کے ساتھ موثر گفتگو کا شعور بھی وقت کے ساتھ ساتھ پنپ رہا تھا۔درحقیقت والدین کی یہی تربیت آگے چل کر بچوں کو متوازن شخصیت کی مالک بناتی ہے۔بڑا بیٹا لقمان چھوٹے بیٹے کی نسبت بھولا تھا اسے کھیلوں کا شوق تھا جبکہ چھوٹے بیٹے ذیشان کو جاسوسی کتابیں پڑھنے اور گیمز کھیلنے کا شوق تھا۔ان مہمانوں کے جانے کے بعد اس کے ذہن میں بھی ایک سوال قلبلا رہا تھا جو کہ بڑے بھائی کے سوال سے ملتا جلتا تھا۔اس نے بھی اپنے پاپا پر اعتراض کر دیا کہ۔۔۔۔
آپ تو کہ رہے تھے کہ یہ تمہارے دادا ہیں مگر وہ تو جب آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے آپ دونوں برابر لگتے تھے۔یہ دیکھیں تصویر اس نے موبائل سے بنائی ہوئے گروپ فوٹو دکھاتے ہوئے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
اس دادا دادی کی سچ میں مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آئی ۔
درست کہا شبانہ سمجھ تبھی لگے گی جب اسکی دوسری قسط لگے گی۔
تبصرہ کا شکریہ ہمارے ساتھ رہیں۔