افسانہ نگار
شازیہ عندلیب
برلاس خان نے اپنی داڑھی کھجائی پھر داڑھی پہ ہاتھ پھیرا اسکے چہرے پر بچوں کے سوالات سن کر ایک خوشگوار سی مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ اپنے ذہن میں بچوں کو مطمئن کرنے کے لیے جواب کے تانے بانے بننے لگا۔چھوٹے دادا دادی سے انکی ملاقات کئی برس بعد ہوئی تھی اس سے پہلے بچے آٹھ برس پہلے ملے تھے جب وہ انکے پاس چھٹیاں گزارنے ڈنمارک گئے تھے۔اور اب آٹھ برس بعد انکی ملاقات برطانیہ میں ہوئی تھی جہاں یہ لوگ حال ہی میں شفٹ ہوئے تھے۔
برلاس خان نے اپنے مخصوص خوشگوار انداز میں اپنے فیورٹ چچا کے بارے میں بچوں کو بتانا شروع کیا کہ جب تمہارے دادا ابو یعنی میرے ابو کی شادی ہوئی تھی اس وقت تمہارے چھوٹے دادا اور میرے چچا برلاس خان پیدا نہیں ہوئے تھے۔اور جب وہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے تو بڑے بھائی کی شادی میں کیسے جاتے؟ہاں اب سمجھ آئی بڑا بیٹا لقمان بولا اور عرفان منہ کھولے حیرانی سے یہ قصہ سن رہا تھا۔تینوں بچے بڑے انہماک سے اپنے پاپا سے یہ دلچسپ اور سچی کہانی سن رہے تھے۔
پھر کیا ہوا؟چھ سالہ رامین نے پوچھا۔ہاں پھر تمہارے بڑے چچا پیدا ہوئے اور اس کے بعد میرے چھوٹے چچا پیدا ہوئے۔مگر ایک مزے کی بات یہ ہے کہ میرے چچا پیدا ہوتے ہی دادا بن گئے اور چچی شادی کے فوراّ بعد دادی بن گئیں۔وہ کیسے دونوں بیٹوں نے ایک ساتھ حیرانی سے سوال کیا۔کیا پاکستان میں پیدا ہوتے ہی بچے دادا دادی بن جاتے ہیں چھوٹی بیٹی نے بڑی معصومیت سے سوال کیا؟
ارے نہیں پہلے زمانے میں لوگ جلدی شادیاں کر دیتے تھے اس لیے۔برلاس خان نے کہا۔
وہ ایسے کہ تمہارے چھوٹے دادا کی ایک کزن میرے دادا ابو کی ہم عمر تھیں اور انکے بیٹوں کی شادی ہو چکی تھی اب ان کے جو پوتے تھے وہ رشتے میں میرے چچا کے بھی پوتے تھے۔چچا کی وہ کزن انکی فسٹ کزن تھیں یعنی وہ انکی سگی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔بچے اس قدر پیچیدہ رشتوں کی تفصیل سن کر حیران پریشان رہ گئے۔مگر کچھ کچھ سمجھ آ رہی تھی۔ہمارے معاشرے میں جو دادا دای کے بہن بھائی ہوتے ہیں وہ بھی دادا دادی ہی کہلاتے ہیں چاہے انکی عمر کوئی بھی ہو۔جبکہ یورپ میں رشتوں کی تقسیم اس طرح سے نہیں کی جاتی اسکا مقصد ہمارے ہان رشتوں کا احترام کرنا ہے بلکہ یورپ کے اکثر ممالک میں تو والدین کو بھی اور اساتذہ کو بھی ناموں سے بلایا جاتا ہے۔رشتوں کے تقدس اور احترام کا یہ تصور یورپین معاشرے میں نا پید ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہے معاشرتی بگاڑ کی۔اب تو ہمارا معاشرہ بھی تنزلی کی طرف جا رہا ہے مگر یورپ سے ابھی بھی کم ہے۔یہاں بڑے چھوٹے کا احترام ہے رشتوں کا تقدس ہے جسے قائم رکھنا اب ہمارا اور ہماری نئی نسل کا فرض ہے۔
گو کہ بچے انٹر نیٹ پر اپنے رشتہ داروں اور ان دادا دادی سے سلام دعا لیتے رہتے تھے مگر وہ دیکھنے میں اتنے فریش ہوں گے کہ بالکل دادا دادی لگیں گے ہی نہیں یہ اندازہ نہیں تھا انہیں۔
جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں انہیں بچوں کو رشتوں کے بارے میں بتانا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ بیرون ملک رہنے والے والدین کے لیے۔لیکن اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ چاہے فون یا انٹر نیٹ پہ ہی سہی بچوں کو لازمی اپنے قریبی عزیزوں سے وقتاّ فوقتاّ چھٹی کے دن خاص طور سے سلام دعا لینے کی عادت ڈالیں عید تہوار اور دوسرے خصوصی شادی بیاہ وغیرہ کے مواقعوں پر انہیں بھی مبارکباد دینے والوں میں شامل کریں۔ہو سکے تو اپنے عزیزو اقارب سے چھٹیوں میں ملوانے بھی لے جائیں۔بچوں کو اپنے عزیزون کے بارے میں دلچسپ اور مفید باتیں بتائیں اور اگر کسی عزیز میں کوئی خوبی ہے تو اسے رول ماڈل کے طور پہ پیش کریں۔پھر خاص مواقع پہ بچوں کو اکٹھا کر کے اپنے عزیزوں کے بارے میں کوئز سوالات ترتیب دیں انکے کارناموں اور خصوصیات کے بارے میں۔ جبکہ اچھے اور لائق خاندان کے افراد کو بچوں کے سامنے بطور رول ماڈل پیش کریں۔ اس طرح نہ صرف بچوں کی عزیز و اقارب سے محبت بڑھے گی بلکہ انہیں ان کے بارے میں معلومات بھی ہو گی جس کی وجہ سے انکا مورال بلند ہو گا اور خود اعتمادی بڑھے گی۔چھوٹے موٹے اختلافات اور دشمنیوں کو ختم کریں سوائے ان عزیزوں کے جو اپنی نقصان دہ روش نہیں چھوڑتے یا جن کی مجلس سے بچوں کے کردار پہ برے اثرات پڑنے کا اندیشہ ہو۔اس طریقے سے خاندانوں کے اندر اپنے عزو ز اقارب سے پیار و محبت کے جذبات کو تقویت ملے گی۔اختلافات کم ہوں گے۔خاندانوں سے معاشرے میں مثبت رویوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔یہ طریقہ اپنانے سے بچوں کی تربیت نہائیت دلچسپ اور موثر انداز میں ہو سکتی ہے۔آپ کوئز کے علاوہ بھی اور طریقوں سے اپنے عزیزو اقارب کے بارے میں دلچسپ کھیل بنا سکتے ہیں بلکہ کچھ آئیڈیاز تو ہمیں بھی بتائیں۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
میں آپ سے بالکل اتفاق کرتی ہوں کہ ھمارے بزرگوں کو بچوں کو ایسے خوشگوار ماحول بنانے چاہیے جس سے ان کی تعلیم و تربیت ہو سکےاور اپنے رشتے داروں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے۔
ثمرہ `کہانی پڑھنے اور سراہنے کا شکریہ ،
مزید رائے کا انتظار رہے گا۔